کیس کی نوعیت پر دلچسپ گفتگو
سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ یہ سوال لگتا ہے کہ روزانہ اٹھایا جائے گا کہ آیا کیس عام بنچ سنے گا یا آئینی بنچ۔ یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت جاری تھی، جس میں 26 ویں آئینی ترمیم کا ذکر ہوا۔
ججز کے درمیان مزاحیہ مکالمہ
جسٹس منصور علی شاہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا کہ کیا یہ کیس آئینی بنچ میں جائے گا یا ہم بھی اس کی سماعت کر سکتے ہیں۔ ان کے اس سوال پر جسٹس عائشہ ملک نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہ آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ آئینی بنچ کا حصہ بنیں یا نہیں۔ وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ اب سیاسی کیسز آئینی کیسز میں تبدیل ہو چکے ہیں، جس پر جسٹس عائشہ ملک نے مذاق میں کہا کہ یہ تو آپ کا ہی معاملہ ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے کیس میں دلچسپی
عدالت کے سامنے ایک اور کیس میں، جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آیا موسمیاتی تبدیلی کے چیئرمین کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا ہے۔ جب ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نوٹیفکیشن ابھی جاری نہیں ہوا، تو جسٹس منصور علی شاہ نے مزاحیہ لہجے میں کہا کہ اب تو اٹارنی جنرل کی تمام مصروفیات ختم ہو چکی ہوں گی۔
کیس کی سماعت کا مستقبل
عدالت نے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر اٹارنی جنرل کی پیشی کی ہدایت کی۔ اسی دوران، سینیٹ کے بعد 26ویں آئینی ترمیمی بل قومی اسمبلی سے بھی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہوا، جو سیاسی میدان میں اہمیت رکھتا ہے۔
یہ تمام گفتگو اور حالات ظاہر کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ میں روزانہ نئے سوالات اور مباحثے جاری رہیں گے، خاص طور پر جب آئینی تشریحات اور سیاسی معاملات آپس میں ملتے ہیں۔