خیبر پختونخوا میں آپریشن کی مخالفت
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ صوبے میں بڑے پیمانے پر کسی بھی آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ان کا مؤقف ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف عوام متاثر ہوں گے بلکہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صرف انٹیلی جنس بیسڈ کارروائیاں جاری رہیں گی، تاکہ مخصوص خطرات کو کم کیا جا سکے، مگر پورے علاقے میں وسیع آپریشن سے نقصان زیادہ ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ماضی میں کیے گئے آپریشنز کے نتائج کو دیکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی بڑے آپریشن کیے گئے، عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اور دہشت گردی کا مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسائل کا حل بندوق سے نہیں بلکہ دانشمندانہ حکمت عملی اور مؤثر پالیسیوں سے نکالا جانا چاہیے۔
افغانستان کے ساتھ مذاکرات ناگزیر ہیں
علی امین گنڈاپور نے واضح کیا کہ خیبر پختونخوا میں امن قائم کرنے کے لیے افغانستان کے ساتھ مذاکرات انتہائی ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کے بغیر سرحدی علاقوں میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ افغان حکومت سے تعلقات بہتر بنائے بغیر دہشت گردی کے خلاف مؤثر کارروائی ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ بھی افغانستان سے مذاکرات کے لیے جرگہ بھیجنے کے معاملے پر متفق ہے، تاکہ دوطرفہ مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قراردادیں پاس کرنے یا سخت گیر بیانات دینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔
بانی پی ٹی آئی کی رہائی ضروری ہے
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے ملک میں سیاسی استحکام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک بانی پی ٹی آئی قید میں ہیں، سیاسی استحکام ممکن نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جمہوری عمل کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی قائدین کو کھلی فضا میں کام کرنے دیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ خود بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور یہ ان کے ضمیر کی آواز ہے کہ وہ اس معاملے میں جو کچھ کر سکتے ہیں، کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی قوتیں ایک ساتھ بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کریں۔
علی امین گنڈاپور نے مزید کہا کہ کل ہونے والی میٹنگ میں سیاسی معاملات پر بات نہیں ہوئی، لیکن وہ اس بات پر قائم ہیں کہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے بغیر آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔
این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی اور خیبر پختونخوا کے حقوق
علی امین گنڈاپور نے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے وسائل اور مالی حقوق کے حوالے سے وفاق کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ آرمی چیف بھی ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں اور ہمیشہ صوبے کے جائز حقوق کی بات کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کو اس کے وسائل اور ضروریات کے مطابق فنڈز ملنے چاہئیں، تاکہ ترقیاتی منصوبے مکمل کیے جا سکیں اور صوبے میں استحکام پیدا ہو۔
افغان مہاجرین کے حقوق اور بیدخلی کی مخالفت
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے افغان مہاجرین کو زبردستی بے دخل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح نکالنے کے بجائے ایک منظم طریقہ کار اختیار کرنا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی افغان شہری پاکستان میں قانونی طور پر رہنا چاہتا ہے اور شہریت لینا چاہتا ہے تو اسے شہریت دینے میں کوئی حرج نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے ہجرت کرنے والے کئی افراد برسوں سے پاکستان میں آباد ہیں، ان کی نسلیں یہیں پلی بڑھی ہیں، اور ان کی بے دخلی سے انسانی حقوق کے مسائل پیدا ہوں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے، تاکہ انسانی بحران سے بچا جا سکے۔
دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے خطرات اور عوام کا کردار
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے انکشاف کیا کہ صوبے میں سخت گیر دہشت گردوں کی تعداد اب 22 ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے تک ان کی تعداد 5,500 تھی، لیکن اب یہ تعداد 11 ہزار تک پہنچ چکی ہے، جن میں افغان عسکریت پسند بھی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ریاست، عوام اور سیکیورٹی ادارے ایک پیج پر آجائیں اور آپس میں اعتماد بحال ہو، تو دہشت گردی جیسے مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے ہمیشہ ملک کی سلامتی کے لیے قربانیاں دی ہیں، اور وہ اس چیلنج سے نمٹنے میں حکومت کا ساتھ دیں گے۔
فوج کے ساتھ تعلقات اور غلط فہمیاں
علی امین گنڈاپور نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا جن میں کہا جا رہا تھا کہ وہ فوج کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ انہوں نے خواجہ آصف، فیصل واوڈا اور طلال چوہدری کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر وہ فوج کے ساتھ اچھے تعلقات رکھتے ہیں، تو اسے غداری کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے ہمیشہ کہا کہ فوج ہماری ہے اور اگر فوج مضبوط ہوگی تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اختلافات کسی فرد سے ہو سکتے ہیں، جیسے کہ قمر جاوید باجوہ سے ہوئے، لیکن ادارے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔
نتیجہ
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا مؤقف واضح ہے کہ خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر آپریشن کے بجائے مذاکرات کو ترجیح دی جانی چاہیے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات، این ایف سی ایوارڈ پر نظرثانی، اور سیاسی استحکام کے لیے بانی پی ٹی آئی کی رہائی ضروری ہے۔
انہوں نے دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے خطرات پر بھی تشویش ظاہر کی اور کہا کہ عوام، حکومت اور سیکیورٹی ادارے مل کر اس مسئلے کا حل نکال سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کے مسائل کو انسانی ہمدردی کے تحت حل کیا جانا چاہیے اور انہیں زبردستی بے دخل کرنے کے بجائے ایک مناسب طریقہ کار کے تحت ان کی واپسی ممکن بنائی جائے۔
مزید پڑھیں
عید کے بعد اپوزیشن کا امن و امان پر آل پارٹیز کانفرنس کرنے کا فیصلہ