قرآن کریم میں بھلی بات کا حکم
قرآن کریم میں ارشاد باری کا مفہوم ہے: اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔ (البقرۃ)۔ اچھی بات میں نرمی، شائستگی، عزت اور مکارمِ اخلاق شامل ہیں۔ اسلام سخت، تلخ یا بے ادب گفت گُو کو پسند نہیں کرتا۔ بھلی گفت گُو انسان کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے اور معاشرتی تعلقات کو مضبوط بناتی ہے۔
ہر انسان کے ساتھ حسنِ گفتار
آیت میں للناس کہہ کر مخاطب کا دائرہ وسیع کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان، چاہے مسلمان ہو یا غیر، اس کے ساتھ نرمی اور احترام سے بات کرنی چاہیے۔ بھلی گفت گُو دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے اور نفرت و دشمنی کے امکانات کو کم کرتی ہے۔
گفتار میں نرمی اور حکمت
الفاظ صرف ادا نہیں کیے جاتے، بلکہ نرمی، حکمت اور عدل کے ساتھ چُنے جانے چاہئیں۔ گفتار میں نرمی دلوں کو نرم کرتی ہے اور تنازعات کو کم کرتی ہے، جبکہ سخت اور تلخ کلامی دشمنی اور نفرت کو بڑھا دیتی ہے۔ نرمی سے بات کرنے کا اثر زیادہ دیرپا اور مثبت ہوتا ہے۔
انصاف اور عدل کی بنیاد
اسلام میں گفتار کے اصول عدل، انصاف اور سچائی پر مبنی ہیں۔ کسی کے ساتھ زیادتی، تعصب یا نفرت کی بنیاد پر بات کرنا ممنوع ہے۔ سچائی اور انصاف کے ساتھ بات کرنا نہ صرف فرد کے لیے برکت ہے بلکہ معاشرے میں اعتماد اور اتحاد کو بھی فروغ دیتا ہے۔
بہترین اندازِ گفتار
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اور اے حبیب! آپ میرے بندوں سے فرما دیں کہ وہ ایسی بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔ (سورۃ بنی اسرائیل)۔ اگر ایک بات کئی انداز میں کہی جا سکتی ہے تو مؤمن کو وہ انداز اختیار کرنا چاہیے جو سب سے زیادہ وقار رکھتا ہو۔ یہ اصول نہ صرف عزت و احترام قائم کرتا ہے بلکہ بات کا اثر بھی بڑھاتا ہے۔
جھوٹ، بہتان اور فتنہ سے پرہیز
جھوٹی بات، بہتان، الزام تراشی یا کسی بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا سختی سے منع ہے۔ جھوٹ نہ صرف اخلاقی عیب ہے بلکہ اعتماد اور اتحاد کو بھی کمزور کرتا ہے۔ اسلام میں گفتار کا مقصد اصلاح، نرمی اور حسنِ سلوک ہے، نہ کہ دوسروں کو نیچا دکھانا یا فتنہ پیدا کرنا۔
نرمی دشمن کو دوست بنا سکتی ہے
حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون سے خطاب میں نرمی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا۔ اگر ظالم اور جابر شخص کے ساتھ نرمی اختیار کی گئی تو عام انسانوں کے ساتھ سختی کا جواز کیسے ہو سکتا ہے؟ نصیحت، مشورہ یا اعتراض میں لہجہ نرم ہونا چاہیے تاکہ تعلقات اور فہمِ دین میں بہتری آئے۔
رسول ﷺ کی گفتار کا عملی نمونہ
رسول اللہ ﷺ نہایت نرم گو، عادل اور خوش کلام تھے۔ آپ ﷺ کسی سے تحقیر سے بات نہ کرتے اور کمزوروں کی عزت رکھتے۔ دشمنوں کے ساتھ بھی حسنِ اخلاق اختیار کرتے۔ یہ عملی نمونہ ہمیں سکھاتا ہے کہ گفتار صرف اظہار خیال نہیں، بلکہ اصلاحی عمل بھی ہے۔
زبان کی طاقت اور معاشرتی اثر
زبان انسان کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ جنت کی طرف بھی اور جہنم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے۔ گفتار کے اصولوں پر عمل کرنے سے فرد کی شخصیت سنورتی ہے اور پورا معاشرہ مہذب، باوقار اور عدل پر قائم رہتا ہے۔ روزمرہ کی گفتار میں سچائی، نرمی اور انصاف کو اپنانا ضروری ہے۔
حاصلِ کلام
اگر ہماری گفتار خالص، نرمی، حسن اور عدل پر مبنی ہو تو نہ صرف ہماری شخصیت بہتر ہوتی ہے بلکہ معاشرہ بھی سکون اور محبت کا مرکز بنتا ہے۔ قرآن اور سنت کے اصولوں پر عمل کرنا ہر مومن کی ذمہ داری ہے تاکہ ہماری زبان اصلاح کا ذریعہ بنے، نہ کہ فساد یا دشمنی کا۔
مزید پڑھیں