دینی حلقوں میں حسد، رقابت اور اخلاص کی کمی
دینِ اسلام کا اصل مقصد اسلام کی بنیاد سادگی، اخلاص، عاجزی اور اﷲ کی رضا پر ہے۔ دین کی دعوت کا اصل مقصد دلوں کی اصلاح، اخلاق کی بہتری اور انسان کو اپنے رب سے جوڑنا ہے۔ مگر افسوس کہ بعض اوقات کچھ علمائے کرام اور خطباء کے درمیان ایسی مقابلہ بازی دیکھنے کو ملتی ہے جو ان اعلیٰ مقاصد کے برعکس ہوتی ہے۔
مجالسِ وعظ میں مقابلہ بازی
واعظ اور نصیحت کی محافل دلوں کو نرم کرنے اور ایمان کو تازہ کرنے کا ذریعہ ہونی چاہییں، لیکن بعض اوقات یہ شہرت، زیادہ سامعین جمع کرنے یا علمی برتری دکھانے کی دوڑ بن جاتی ہیں۔ اس دوران غیر ضروری فقہی مباحث، طنز اور تنقید مجلس کے ماحول کو بگاڑ دیتے ہیں، جس سے اخلاص ختم اور سننے والے محروم ہو جاتے ہیں۔
مسجدوں کی امامت میں رقابت
امامت ایک مقدس ذمہ داری ہے جس کا مقصد امت کو جوڑنا ہے۔ لیکن بعض امام صاحبان رقابت، حسد اور مسلکی بالادستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ایک محلے کی مساجد کے درمیان بھی فاصلہ اور تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام ہمیں بھائی چارے اور باہمی تعاون کی تعلیم دیتا ہے۔
مدارس میں شخصیات کا ٹکراؤ
مدارس انسان سازی کے مراکز ہیں، مگر جب ناظمین اور اساتذہ کے درمیان ضد اور انا پیدا ہو تو طلبہ گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ علم کے بجائے شخصیت پرستی اور محاذ آرائی پروان چڑھتی ہے، جس سے خلوص اور تعلیم کا وقار متاثر ہوتا ہے۔
شاگردوں میں استادی حسد
جب شاگرد ترقی کرتے ہیں تو بعض اساتذہ خوشی کے بجائے حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ ان کی کامیابی کو اپنی محنت کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے تنقید اور رکاوٹوں کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ ایک استاد کے لیے لازم ہے کہ وہ شاگرد کی کامیابی پر فخر کرے اور اصلاح خیرخواہی سے کرے۔
اداروں کا باہمی تعصب
دینی ادارے اپنی خدمات کو سب سے بہتر اور دوسروں کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس رویے سے عوام میں تفرقہ اور گروہ بندی بڑھتی ہے۔ قرآن ہمیں نیکی اور تقویٰ پر تعاون کرنے کا حکم دیتا ہے، نہ کہ مقابلہ بازی کا۔
فتویٰ بازی اور شخصیت پرستی
جب فتویٰ ذاتی انا یا مسلکی تعصب کا شکار ہو جائے تو یہ امت میں انتشار پھیلاتا ہے۔ معمولی اختلافات کو بڑا بنا کر دوسروں کے خلاف فتوے دینا علم کی روح کے خلاف ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ اختلاف کو محبت اور عدل کے ساتھ پیش کیا جائے۔
خطابت میں حسد
بعض خطباء دوسرے خطیب کی مقبولیت برداشت نہیں کر پاتے اور اپنی تقریروں میں اشاروں کنایوں میں تنقید کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل نہ صرف حسد بلکہ دعوت کے وقار کے بھی خلاف ہے۔ خطیب کو اخلاص سے بات کرنی چاہیے اور دوسروں کی کامیابی پر خوش ہونا چاہیے۔
دینی مقابلوں میں غیر اخلاقی رجحانات
قرأت، نعت اور تقریری مقابلوں کا مقصد دین سے محبت اور تربیت ہونا چاہیے۔ لیکن جب یہ شہرت، انعامات اور برتری کا ذریعہ بن جائیں تو اخلاص ختم ہو جاتا ہے اور حسد و تکبر پروان چڑھتے ہیں۔ اصل کامیابی اخلاص میں ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔”
طلبہ کو گروہی تعصب میں ڈالنا
بعض ادارے طلبہ کو مخصوص مسلکی مخالفت کی تعلیم دیتے ہیں، جس سے نوجوانوں کے دلوں میں تنگ نظری پیدا ہوتی ہے۔ استاد کا فرض ہے کہ وہ طلبہ میں وسعتِ نظر، احترام اور اتحاد پیدا کرے، نہ کہ گروہی وابستگی کو بڑھائے۔
اخلاص کی کمی اور دین کی دعوت
دعوتِ دین کی اصل بنیاد اخلاص ہے۔ جب نیت شہرت یا مقابلہ بازی ہو تو دعوت دلوں پر اثر نہیں ڈالتی۔ دین کی تاثیر زبان یا انداز میں نہیں بلکہ دل کی سچائی میں ہے۔
حاصلِ کلام
اگر دینی حلقوں میں حسد اور رقابت پروان چڑھیں تو دین کی دعوت متاثر اور امت کمزور ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اخلاص، تحمل اور باہمی احترام کو اپنائیں تاکہ دین کا پیغام مؤثر اور دلوں تک رسائی پائے۔
اقبالؔ کا پیغام
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ، دین بھی، ایمان بھی ایک
مزید پڑھیں