خیبرپختونخوا حکومت کا مؤقف: بانی پی ٹی آئی کی مشاورت لازم
پشاور سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا، علی امین گنڈاپور نے واضح انداز میں کہا ہے کہ آئندہ مالی سال کا بجٹ بانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی مشاورت اور منظوری کے بغیر ہرگز پیش نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اپنے اس مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا کو عوام نے پی ٹی آئی کے نظریے پر ووٹ دے کر مینڈیٹ دیا ہے اور اس عوامی مینڈیٹ کے تحت حکومت قائم کی گئی ہے۔ لہٰذا بجٹ جیسا اہم معاملہ لیڈر کی مشاورت کے بغیر ممکن نہیں۔
عدالتی احکامات کے باوجود ملاقات میں رکاوٹیں
علی امین گنڈاپور نے نجی نیوز چینل جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فارم 47 کی بنیاد پر قائم موجودہ حکومت ان کی اپنے قائد عمران خان سے ملاقات میں رکاوٹیں ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے مسلسل کوششوں کے باوجود وہ اپنے لیڈر سے مناسب ملاقات نہیں کر سکے، حالانکہ عدالتی احکامات بھی موجود ہیں۔ ایک حساس صوبے کا وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود انہیں صرف چند بار ہی عمران خان سے ملاقات کا موقع ملا، جو باعث تشویش ہے۔
عوامی حکومت کا وژن اور لیڈرشپ کی ضرورت
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں عوامی حکومت قائم ہے جو مکمل طور پر عمران خان کے وژن پر مبنی ہے۔ عوام نے ان پر اعتماد کیا ہے اور ان کا یہ اعتماد اس وقت مکمل ہوگا جب بجٹ سمیت ہر اہم پالیسی پر پارٹی لیڈر کی رہنمائی اور ہدایات شامل ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کی تیاری مکمل ہو چکی ہے لیکن اس پر حتمی منظوری عمران خان سے مشورے کے بعد ہی دی جائے گی۔
وفاق اور پنجاب کی رکاوٹیں
علی امین گنڈاپور نے الزام عائد کیا کہ وفاقی اور پنجاب حکومتیں نہ صرف انہیں بلکہ ان کی فنانس ٹیم کو بھی عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دے رہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ملک کی سیاسی فضا میں سنجیدہ رویے کی ضرورت ہے، نہ کہ رکاوٹوں سے معاملات کو مزید بگاڑا جائے۔ اگر حکومتیں لیڈرشپ سے ملاقات کی اجازت نہیں دیتیں تو یہ نہ صرف غیرجمہوری عمل ہے بلکہ عوامی مینڈیٹ کی توہین بھی ہے۔
نتیجہ
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ بجٹ جیسا اہم معاملہ پارٹی قیادت کی مشاورت کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا اصرار ہے کہ عمران خان کی رہنمائی سے ہی بجٹ مکمل ہوگا اور خیبرپختونخوا کے عوام کی توقعات پر پورا اترے گا۔ اگر حکومتیں ان کے اور ان کی ٹیم کے لیے ملاقات کا دروازہ بند رکھتی ہیں تو اس کے نتائج جمہوری روایات اور قومی یکجہتی کے لیے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں