بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کیا اقدام اٹھائیں گے؟ کیا کمیشن کے بغیر مذاکرات ممکن ہیں؟ بیرسٹر گوہر کا دوٹوک موقف سپریم کورٹ 26ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر بڑی سماعت کا آغاز فیصل جاوید: عمران خان سے ملنے جائیں تو لگتا ہے ہم جیل میں ہیں۔

ججز کمیٹی کا ممبر ہونے کے باوجود اجلاس کی اطلاع کیوں نہ ملی؟ جسٹس منصور علی شاہ

justice Mansoor Ali Shah remarks as a committee member in the supreme court of Pakistan.

سپریم کورٹ کے اجلاس میں ججز کمیٹی کا اہم معاملہ: جسٹس منصور علی شاہ کی ریمارکس

سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے حالیہ سماعت کے دوران یہ حیرانی کا اظہار کیا کہ ججز کمیٹی کے اجلاس کا انہیں بھی علم نہیں ہوا، حالانکہ وہ اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ریگولر بینچز کے اختیارات پر سماعت جاری تھی۔

ججز کمیٹی اجلاس کا غیریقینی فیصلہ
سپریم کورٹ میں آئینی بینچز اور ریگولر بینچز کے معاملے پر سماعت کے دوران، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کے سامنے بیرسٹر صلاح الدین پیش ہوئے۔ بیرسٹر صلاح الدین نے اپنے موقف میں کہا کہ وہ کراچی سے آئے ہیں اور مقدمہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہوا۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اس معاملے کی تفصیل حاصل کرنے کی کوشش کی اور ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس سے اس بابت وضاحت طلب کی۔

ججز کمیٹی اجلاس کا نتیجہ

مختصر وقفے کے بعد جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا، ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ زوالفقار علی عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ ججز کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کیس کو 27 جنوری کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ خود ججز کمیٹی کے ممبر ہونے کے باوجود اس اجلاس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے۔

ججز کمیٹی کے اجلاس کے منٹس کا فقدان
عدالت نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ ججز کمیٹی کے اجلاس کے منٹس ابھی تک سپریم کورٹ آفس کو موصول نہیں ہوئے ہیں۔ ڈپٹی رجسٹرار نے بتایا کہ اجلاس کے فیصلے کے بارے میں فائل پر متعلقہ مواد منسلک تھا، لیکن اس کے باوجود اجلاس کے منٹس کی عدم دستیابی نے عدالت کی تشویش میں اضافہ کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے مزید کہا کہ انہیں اس بات کی تفصیل دی جائے اور ججز کمیٹی اجلاس کے میٹنگ منٹس عدالت میں پیش کیے جائیں۔

توہین عدالت کا نوٹس اور مزید کارروائی

اس دوران عدالت نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو توہین عدالت کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا۔ عدالت نے ہدایت کی کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اس بابت وضاحت پیش کریں اور کیس کی سماعت کل ساڑھے 9 بجے کے پہلے نمبر پر کی جائے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ 16 جنوری کے جوڈیشل آرڈر کے مطابق، یہ کیس اسی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے تھا، لیکن اس حکم کو نظر انداز کیا گیا۔

ججز کمیٹی کا انتظامی اختیار پر سوالات
سماعت کے دوران، جسٹس عائشہ ملک نے اس بات پر سوال اٹھایا کہ کیا اب ایک رسرچ آفیسر فیصلہ کرے گا کہ کون سے کیس آئینی بینچ میں جائیں گے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اس پر کہا کہ یہ کیس انتظامی کمیٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے، لیکن کمیٹی کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کیسز کو کسی اور بینچ میں منتقل کر دے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کے مطابق یہ کیس آئینی بینچ میں جانا چاہیے تھا، اور یہ بحث ہماری عدالت میں بھی ہو سکتی تھی۔

اس حوالے سے بیرسٹر صلاح الدین نے بھی ایک کیس کا حوالہ دیا جس میں ازخود نوٹس لیا گیا تھا اور فیصلے میں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگر کوئی بینچ چیف جسٹس کو معاملہ بھجواتا ہے تو چیف جسٹس اس معاملے کو دیکھے گا۔

انتظامی کمیٹی کے اختیارات پر سوالات
جسٹس عائشہ ملک نے اس پر مزید ریمارکس دیے کہ وہ سمجھ نہیں پاتیں کہ دو یا تین ذہنوں کے مقابلے میں ایک چیف جسٹس کیسے بہتر فیصلہ دے سکتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے اس پر کہا کہ یہ کیس کسی دوسری عدالت میں سماعت کے لیے مقرر نہیں کیا گیا بلکہ پورا کیس ہی غائب کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ججز کمیٹی چاہتی تو وہ پورا بینچ دوبارہ تشکیل دے سکتی تھی۔

اختتام

یہ صورتحال سپریم کورٹ کے داخلی معاملات اور انتظامی کمیٹی کے اختیارات کے حوالے سے مزید سوالات کھڑی کرتی ہے۔ ججز کمیٹی کے اجلاس کے فیصلوں کے حوالے سے غیر شفافیت اور بعض حکومتی فیصلوں کے نفاذ میں پیچیدگی نے سپریم کورٹ کے انتظامی امور پر سوالات اٹھائے ہیں، اور اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

بلیک فرائیڈے

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

:متعلقہ مضامین