اسلام آباد
سابق وفاقی وزیر مشاہد حسین سید نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملیاں ایک جیسی ہیں، اس لیے ٹرمپ ان کی رہائی کے لیے ضرور کوئی اقدام کریں گے۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اے آر وائی نیوز کے پروگرام “الیونتھ آور” میں میزبان وسیم بادامی سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور بانی پی ٹی آئی کی پالیسیوں میں مماثلت
مشاہد حسین سید نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایک روایتی سیاستدان نہیں ہیں۔ ان کی حکمت عملیاں بانی پی ٹی آئی کے نظریات سے ملتی جلتی ہیں، جو ان کے ممکنہ تعاون کا اشارہ دیتی ہیں۔ ٹرمپ کا طرزِ سیاست اور فیصلے کسی بھی روایتی امریکی سیاستدان سے مختلف ہیں، اور ان کا جھکاؤ ان رہنماؤں کی طرف ہوتا ہے جو ان کے سیاسی انداز سے میل کھاتے ہیں۔
امریکا کی مداخلت اور رہائی کا امکان
سابق وفاقی وزیر نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ٹرمپ پاکستانی معاملات میں امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹس پر نہیں بلکہ خود اپنے تجزیے اور فیصلوں پر عمل کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی امریکا میں ایک مضبوط لابی موجود ہے، اور نئے امریکی صدر ان کی رہائی کے لیے کسی نہ کسی طریقے سے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے۔ مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان پر مختلف ذرائع سے دباؤ ڈالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں تاکہ یہ معاملہ حل کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں بھی امریکی مداخلت کے ذریعے ایک سابق وزیراعظم کو ریلیف فراہم کیا گیا تھا۔ اگر پہلے ایسا ہو سکتا ہے، تو موجودہ حالات میں بھی مداخلت ممکن ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور اثرات
مشاہد حسین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ وہ واحد امریکی صدر تھے جنہوں نے اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے ثالثی کی خواہش ظاہر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ٹرمپ غیر معمولی معاملات میں بھی قدم اٹھانے سے گریز نہیں کرتے۔
وزیراعظم شہباز شریف کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوبائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ان کے خط کا جواب نہ ملنا امریکا میں ان کی کم مقبولیت کو ظاہر کرتا ہے۔
امریکا اور ایران کے تعلقات کی ممکنہ بحالی
ایران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مشاہد حسین نے کہا کہ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ایران کے خلاف جنگ چاہتا تھا، لیکن موجودہ صورتحال میں ایسا لگتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایران اور امریکا کے تعلقات مثبت سمت میں جاتے ہیں، تو اس کا فائدہ پاکستان کو بھی ہوگا۔
مشاہد حسین نے اپنی گفتگو میں پاکستان کے سیاسی معاملات میں امریکا کے ممکنہ اثرات اور ڈونلڈ ٹرمپ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بھی امریکی اثر و رسوخ کے ذریعے فیصلے بدلے گئے ہیں، اور موجودہ حالات میں بھی ایسا ممکن ہے۔
مزید پڑھیں
شاہد خاقان عباسی کیا عمران خان نیب کا شکار ہوئے، این آر او دیتے تو بچ جاتے؟