قتل کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج بھڑک اٹھا
بنگلادیش میں نوجوان انقلابی رہنما شریف عثمان ہادی کی ہلاکت کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج اور پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئے اور بھارت مخالف نعرے بازی کے ساتھ ساتھ حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا۔
ڈھاکا میں عوامی لیگ اور میڈیا دفاتر کو آگ لگا دی گئی
دارالحکومت ڈھاکا میں مشتعل مظاہرین نے عوامی لیگ کے دفاتر اور بعض میڈیا اداروں کی عمارتوں کو نذر آتش کردیا، توڑ پھوڑ کی اور اہم سڑکیں بند کر دیں۔ مختلف علاقوں میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کی بھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔
انصاف کی فراہمی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان
مظاہرین نے عثمان ہادی کے حق میں نعرے لگائے اور اعلان کیا کہ جب تک ذمہ داروں کو گرفتار کرکے سزا نہیں دی جاتی، احتجاج جاری رہے گا۔ اطلاعات کے مطابق راجشاہی میں شیخ مجیب الرحمان کی رہائش گاہ کو بھی آگ لگا دی گئی۔
سکیورٹی سخت، حالات کشیدہ
حکام نے صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے مختلف شہروں میں سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔ کشیدہ حالات کے باعث عوام میں خوف و ہراس پایا جا رہا ہے۔
عثمان ہادی کون تھے؟
عثمان ہادی جولائی میں حسینہ واجد حکومت کے خاتمے والی طلبہ تحریک کے اہم رہنما تھے اور طلبہ پلیٹ فارم انقلاب منچہ کے ترجمان بھی تھے۔ چند روز قبل ڈھاکا میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوئے اور علاج کے دوران سنگاپور میں انتقال کر گئے۔
قاتل بھارت سے آئے اور واپس فرار ہوگئے—حکام کا دعویٰ
تفتیشی حکام کے مطابق حملہ آور مبینہ طور پر بھارت کی سرحد سے غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور واردات کے بعد واپس فرار ہوگئے۔ مشتبہ قاتل فیصل کریم مسعود جبکہ موٹرسائیکل سوار عالمگیر شیخ قرار دیے گئے ہیں۔
چودہ افراد گرفتار
واقعے کے بعد اب تک 14 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں فیصل کے والد، والدہ، اہلیہ اور بھائی بھی شامل ہیں۔ ان سے تفتیش جاری ہے۔
مزید پڑھیں
کالے کوٹ اور ٹائی عزت کی علامت ہیں، ان کو داغدار نہ کریں: چیف جسٹس سندھ










