شرح سود کم کریں، مارک اپ اب بھی دنیا کے مقابلے میں بلند ہے
سابق وفاقی وزیر تجارت اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (اپٹما) کے پیٹرن انچیف، گوہر اعجاز نے حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر کم کر کے چھ فی صد پر لایا جائے۔ ان کے مطابق، پاکستان میں مارک اپ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں اب بھی غیر معمولی طور پر بلند ہے، جس سے کاروباری برادری کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
معیشت اور سرمایہ کاری پر اثرات
گوہر اعجاز کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی اور سرمایہ کاری میں اضافہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب شرح سود کو کم کیا جائے۔ اسٹیٹ بینک کی موجودہ پالیسی کے باعث کاروباروں پر قرضوں کی لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے صنعتوں کی رفتار سست پڑ گئی ہے اور معیشت جمود کا شکار ہو رہی ہے۔
صنعتوں پر اثرات اور روزگار
شرح سود میں کمی سے نہ صرف صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہو گی بلکہ نئی سرمایہ کاری کے دروازے بھی کھلیں گے۔ جب سرمایہ کار کم سود پر قرض حاصل کریں گے تو نئی فیکٹریاں اور کاروبار کھلیں گے، جس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس سے نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی، ہنر کو فروغ ملے گا، اور غربت میں کمی واقع ہو گی۔
تیس ہزار ارب روپے کی ممکنہ بچت
گوہر اعجاز نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر شرح سود کو چھ فی صد پر لایا جائے تو حکومت کو صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی میں تیس ہزار ارب روپے کی خطیر بچت ہو سکتی ہے۔ یہ بچت ملکی ترقیاتی منصوبوں، صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں استعمال کی جا سکتی ہے، جو براہ راست عوامی فلاح و بہبود میں مددگار ہوگی۔
مانیٹری پالیسی پر تنقید
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ مانیٹری پالیسی دراصل معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔ 11 فی صد کی شرح سود، جب کہ مہنگائی کی شرح تقریباً 5 فی صد ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایسی پالیسیوں سے کاروبار کرنے کا ماحول متاثر ہوتا ہے اور معیشت جمود کا شکار ہو جاتی ہے۔
نتیجہ
گوہر اعجاز نے اسٹیٹ بینک اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ 30 جولائی کو متوقع مانیٹری پالیسی میں شرح سود کو فوری طور پر چھ فی صد پر لایا جائے۔ شرح سود میں کمی، معاشی ترقی، صنعتوں کی بحالی اور روزگار کی فراہمی کی جانب ایک بڑا قدم ہو گا۔
مزید پڑھیں
ایک لاکھ ستاون ہزار سے زائد گاڑیاں درآمد، پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟