عمران خان کی نئی احتجاجی تحریک اور اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت
عمران خان کی نئی احتجاجی تحریک کا آغاز ایک بار پھر ہو چکا ہے، جس میں انہوں نے تحریک انصاف کو ہدایت دی ہے کہ وہ حکومت کے بجائے صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرے۔
اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات اور ملاقاتیں
عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی فرد یا نمائندے سے ملنے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح، علیمہ خان نے بھی کہا ہے کہ عمران خان کچھ لو کچھ دو کی پالیسی کے لیے تیار ہیں۔ حال ہی میں، خبریں آئیں کہ عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمائندے سے ملاقات ہوئی، جس کے نتیجے میں ڈیل ہو سکتی ہے اور عمران خان عید سے پہلے رہا ہو سکتے ہیں، تاہم، یہ خبریں افواہیں ثابت ہوئیں۔
حالات اور سیاسی کشمکش
عمران خان اور ان کے پارٹی رہنماؤں نے ان افواہوں کی سختی سے تردید کی ہے۔
اس کے علاوہ، امریکہ سے پاکستانی نژاد ڈاکٹرز اور بزنس مین پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کا مقصد عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مصالحت کی کوشش کرنا ہے۔ تاہم، ابھی تک عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔
عمران خان کا سخت موقف
عمران خان نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر سخت بیانات دینا شروع کر دیے ہیں اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس پالیسی کے باعث اسٹیبلشمنٹ کے عمران خان سے بات چیت کرنے کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔
احتجاجی تحریک کی نوعیت اور توقعات
متوقع ہے کہ تحریک انصاف ہر شہر میں احتجاج کرے گی، جس کا مقصد عمران خان کی رہائی اور حقیقی آزادی حاصل کرنا ہے۔ پہلے بھی احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنے ہو چکے ہیں مگر کامیابی نہیں ملی، کیونکہ بڑی تعداد میں لوگ باہر نہیں نکلے۔
عوامی شرکت اور پارٹی رہنماؤں کی ذمہ داری
تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ووٹروں سے توقع ہے۔ کہ وہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر احتجاج کا حصہ بنیں گے۔ پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو مشکل حالات کے لیے تیار رہنا ہوگا، چاہے انہیں جیل جانا پڑے یا دیگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔
رہنماؤں کی واپسی اور بیرون ملک موجود کارکنوں کا کردار
روپوش یا مفرور رہنماؤں کو پاکستان واپس آنا چاہیے۔ اسی طرح، بیرون ملک بیٹھے تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی عملی طور پر احتجاج میں حصہ لینا ہوگا۔ اگر ایسا نہ ہوا، تو عمران خان کو پارٹی رہنماؤں اور سپورٹرز پر تنقید کرنے کے بجائے خود احتساب کرنا چاہیے۔
آخر میں
جو عمران خان کی نئی احتجاجی تحریک کی پالیسی سے اختلاف کرتے ہیں، ان سے کوئی شکایت نہیں۔ شکایت ان سے ہونی چاہیے جو عمران خان سے محبت کا اظہار تو کرتے ہیں مگر حقیقی آزادی اور رہائی کے لیے باہر نکلنے سے کتراتے ہیں۔ دوسروں کو گالیاں دینے کی بجائے بہتر ہوگا کہ تحریک انصاف کے رہنما اور سپورٹرز اپنے رویے کا جائزہ لیں۔
مزید پڑھیں