مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو کم از کم فی الحال واشنگٹن سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کا امکان نہیں ہے۔
امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد کی غلط توقعات
بانی پی ٹی آئی کے حامیوں نے کئی مہینوں تک سوشل میڈیا پر یہ تاثر دیا کہ امریکی انتظامیہ کی تبدیلی کے بعد وائٹ ہاؤس سے ایک کال ان کے رہنما کی تقدیر بدل دے گی۔ تاہم مسلم لیگ (ن) کے حالیہ سفارتی روابط کے نتیجے میں یہ ظاہر ہوا کہ یہ توقعات حقیقت سے بہت دور تھیں۔
سینئر وزیر کی وضاحت اور امریکی حکام کی خاموشی
مسلم لیگ (ن) کے سینئر وزیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بانی پی ٹی آئی امریکی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ رابطوں میں امریکی حکام نے پاکستانی ہم منصبوں کو واضح طور پر بتایا کہ سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی حمایت میں چلنے والی مہم کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔
امریکی حکام کا عدم مداخلت کا موقف
سینئر وزیر نے مزید کہا کہ امریکی حکام نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور بانی پی ٹی آئی کے حوالے سے ان کا کوئی خاص موقف نہیں ہے۔
افواہوں کا سلسلہ جاری
اس کے باوجود افواہوں کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔ 10 اپریل کو امریکی وفد کی اڈیالہ جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی خبریں بھی سامنے آئیں، جسے سینیٹر عرفان صدیقی نے محض افواہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔
پی ٹی آئی کی سیاسی پیش رفت کی کوششیں
ادھر پی ٹی آئی کی مقتدرہ حلقوں سے بات چیت شروع کرنے کی کوششیں بھی زیادہ کامیاب نہیں ہو سکیں، تاہم سوشل میڈیا پر بانی پی ٹی آئی کی جلد رہائی اور سیاسی تبدیلیوں کی پیش گوئیاں اب بھی جاری ہیں۔
نتیجہ
اس تمام تر صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی امریکی حمایت کی امیدیں ماضی کی مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے باوجود سیاسی افواہیں اور قیاس آرائیاں جاری ہیں۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی کو امیدیں لگانے کے بجائے عدالت میں قانونی جنگ لڑنی چاہیے