تحریک انصاف کے خاموش حمایتی: وفاداری یا بے وفائی؟ ملک کے ساتھ چلنا مجبوری ہے، زرداری نواز شریف: ن لیگ نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا
A bold graphic with the words "BREAKING NEWS" in red and black, conveying urgency and importance in news reporting.

فوجی عدالت میں دہشتگردوں کے ٹرائل کیلیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی؟ سپریم کورٹ

Why there is a need for civilian trials in military courts main question raised in the Supreme Court of Pakistan in constitution bench.

فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز: سپریم کورٹ میں اہم کیس کی سماعت

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے معاملے پر بحث
آج سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے کیسز کی سماعت سے متعلق ایک اہم کیس کی سماعت ہوئی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کی زیرِ صدارت سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے اس کیس کی سماعت کی، جس میں فوجی عدالتوں میں دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کی ضرورت پر سوالات اٹھائے گئے۔

آئینی ترمیم کی ضرورت: سوالات اور جوابات
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آخر کیوں دہشت گردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی؟ ان کا کہنا تھا کہ جرم کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیا جانا چاہیے کہ ٹرائل کہاں ہوگا، لیکن آئین میں ترمیم کیوں کی گئی؟ اس پر وزارت دفاع کے وکیل، خواجہ حارث نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کا تعین جرم کی نوعیت کے مطابق کیا جاتا ہے، اور اگر جرم آرمڈ فورسز سے جڑا ہو تو اس کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہوتا ہے۔

ٹرائل میں نیت کا کردار: شواہد کے ساتھ وضاحت
جسٹس جمال خان نے نیت کو بھی اہمیت دینے کا عندیہ دیا اور پوچھا کہ جرم کرنے والے کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ ملک کے مفاد کے خلاف تھا؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اس نوعیت کے سوالات شواہد کے تحت ہی طے ہو سکتے ہیں، اور سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اس بات پر زور دیا کہ مجرم کی نیت کا تعین ٹرائل میں ہی کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں بنیادی اصولوں کی وضاحت پہلے کی جانی چاہیے۔

اٹھائے گئے اہم سوالات: فوجی عدالتوں کا کردار

سپریم کورٹ میں ایک اہم سوال یہ بھی تھا کہ اگر دہشت گرد گروہ یا مذہب کے نام پر دہشت گردی کی کارروائی کی جائے تو ٹرائل کہاں ہوگا؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ اس نوعیت کے جرائم کا ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہی ہوگا، اور آئینی ترمیم کے بغیر بھی ان مقدمات کا فوجی عدالت میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔

اسی دوران، جسٹس جمال خان مندوخیل نے یہ بھی استفسار کیا کہ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم کسی آرمڈ پرسن کو اغوا کرے تو اس کیس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ ٹرائل کس عدالت میں چل سکتا ہے، اور یہ معاملہ آئینی ترمیم کے اثرات سے جڑا ہوا ہے۔

اکیسویں آئینی ترمیم: تاریخ اور تنازع
جسٹس حسن اظہر رضوی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے وقت ایک سابق سینیٹ چیئرمین بھی اس معاملے پر روتے ہوئے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس ترمیم کی منظوری میں پارلیمنٹ کے اندر گہری بحث ہوئی تھی اور اس پر شدید مائنڈ اپلائی کیا گیا تھا۔
اسی دوران، خواجہ حارث نے اس بات کا اعتراف کیا کہ پارلیمنٹ میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے تمام ارکان کے لئے وہ بہت قابل احترام ہیں۔

فیصلے کی ملتوی سماعت

سماعت کے دوران عدالت نے خواجہ حارث کے دلائل سنے اور کیس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کر دی۔ اس کیس کی سماعت سے یہ واضح ہو گیا کہ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز اور آئینی ترمیم کے حوالے سے اہم قانونی سوالات اور تفصیلات زیرِ غور ہیں، جو آئندہ چند دنوں میں مزید واضح ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں
کیا کچھ ججوں کو آئینی معاملات کی سماعت سے روکا جا سکتا ہے؟ جسٹس منصور کا سوال

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

A silver Škoda Karoq drives dynamically on a road, promoting a special offer starting at 359,750 kr from Nordbil.

بلیک فرائیڈے

Red promotional graphic highlighting "up to 40% off" regular prices, available online only through Friday.

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp
Bombas logo with a pair of colorful, comfortable socks on feet; text promotes their comfort and invites to shop.

:متعلقہ مضامین