ماضی کی سیاسی جماعتیں اور آئی ایم ایف کا چکر
پاکستان کی سیاسی جماعتیں، جو ماضی میں ملک کو آئی ایم ایف کے مالیاتی دائرے میں لے کر آئیں، آج کل “اکنامک ہٹ مین” کی اصطلاح کو بڑے زور و شور سے استعمال کر رہی ہیں۔
وزیر خزانہ کی وضاحت اور ٹیکس اصلاحات کا چیلنج
اسلام آباد میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے امید ظاہر کی کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا پروگرام جاری رہے گا۔ تاہم، انہوں نے یہ واضح کرنے سے گریز کیا کہ آیا حکومت ایک نیا بجٹ پیش کرے گی یا رواں مالی سال کے ٹیکس ہدف پر دوبارہ بات چیت کی جائے گی، جو شارٹ فال کا شکار ہے۔
حکومت کو ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے حوالے سے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے مطابق، رواں ماہ کے 1.37 ٹریلین روپے کے ہدف میں سے صرف 50 فیصد وصول کیا گیا، جبکہ مہینے کے اختتام میں صرف پانچ دن باقی ہیں۔ اس صورتحال میں آئی ایم ایف کی شرط پوری کرنے کے لیے مزید ایک کھرب روپے اکٹھے کرنا ضروری ہے۔
بینکوں کے ساتھ مذاکرات اور قانونی نرمی
حکومت نے اضافی ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ٹیکس کے حوالے سے کمرشل بینکوں کے ساتھ مفاہمت کا عندیہ دیا۔ اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ نان فائلرز کو اب بھی قانونی طور پر جائیداد، گاڑیاں، اور شیئرز کی خریداری کے علاوہ دیگر لین دین کی اجازت ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ جب آئی ایم ایف کا مشن پاکستان آئے گا، تو ان سے نیک نیتی کے ساتھ بات چیت ہوگی، کیونکہ حکومت ہدف حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ ان کے مطابق، رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں ایف بی آر کو 6.009 ٹریلین روپے اکٹھے کرنے کی ضرورت ہے۔
معاشی استحکام کے لیے ٹیکس اصلاحات اور ڈیجیٹلائزیشن
وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران 29 فیصد اضافے کے مقابلے میں اس سال 40 فیصد نمو کا ہدف زیادہ پرجوش تھا، جسے مکمل کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بعض ٹیکس پالیسیوں اور معاشی مفروضوں نے بہتر نتائج نہیں دیے، جس کی وجہ سے ایف بی آر اپنے ہدف سے پیچھے رہ گیا۔
معاشی استحکام کے حصول کے لیے حکومت نے ٹیکس اصلاحات کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ خسارے پر قابو پانا اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح کو آئندہ تین سال میں 13.5 فیصد تک بڑھانا ضروری ہے۔
حکومت ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے ٹیکس کے نظام میں شفافیت لانے اور کرپشن کے واقعات پر قابو پانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق، یہ اقدامات نہ صرف ریونیو میں اضافہ کریں گے بلکہ شوگر، سیمنٹ، اور ٹیکسٹائل جیسے شعبوں میں لیکیجز کو بھی ختم کریں گے۔
مہنگائی اور خسارے پر قابو پانے کی کوششیں
وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت مہنگائی کو 30-40 فیصد سے کم کرکے 5 فیصد تک لانے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خسارے پر قابو پانا اور معاشی ڈھانچے میں اصلاحات حکومت کی اولین ترجیح ہیں۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک نے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ صرف تنخواہ دار طبقہ اور صنعتیں پورا بوجھ نہ اٹھائیں۔ ان کے مطابق، معاشی استحکام کے لیے صاحبِ حیثیت افراد کو بھی پاکستان کی ترقی میں اپنا جائز حصہ ڈالنا ہوگا۔
نتیجہ
حکومت پاکستان کو معاشی چیلنجز کا سامنا ہے، مگر وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات، ٹیکس اصلاحات، اور ڈیجیٹلائزیشن جیسے اقدامات سے ملک کو معاشی استحکام کی طرف گامزن کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔