سزاؤں کا مذاکرات سے تعلق؟
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس، ایاز خان نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی سزاؤں کا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے یہ معاملہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ، اور امریکہ نے ان سزاؤں پر تحفظات کا اظہار کیا، جو حکومت کے لیے چیلنج بن گیا۔ ایاز خان نے مزید کہا کہ اگر ان سزاؤں کو تسلیم نہ کیا جاتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ ریاست اپنی ماضی کی پالیسیوں کو غلط مان رہی ہے۔
مذاکرات میں تاخیر کا خطرہ
ایاز خان نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام “ایکسپرٹس” میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اپوزیشن، دونوں مذاکرات کی کامیابی کے خواہاں ہیں۔ تاہم، ان کا خیال تھا کہ مذاکرات میں تاخیر خطرناک ہو سکتی ہے اور اس سے معاملات مزید پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مذاکرات کو جلد مکمل کرنے پر زور دیا تاکہ بے یقینی کی صورتحال کا خاتمہ ہو سکے۔
بین الاقوامی دباؤ اور ریاستی وقار
تجزیہ کار فیصل حسین نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی سزاؤں کے حوالے سے بین الاقوامی دباؤ ایک حقیقت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ریاست خوفزدہ ہو گئی ہے۔ ریاست کی پالیسیاں اختلاف رائے کا شکار ہو سکتی ہیں، لیکن دنیا کے سامنے یہ تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان کمزور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو اپنے فیصلوں پر ثابت قدم رہنا ہوگا تاکہ عالمی سطح پر وقار قائم رہے۔
حکومت اور بانی پی ٹی آئی کا مؤقف
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ حکومت اور عمران خان اپنے اپنے جواز پر قائم ہیں۔ حکومت کو علم ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر عالمی انسانی حقوق کے ادارے نکتہ چینی کر رہے ہیں۔ یورپی یونین اور برطانیہ نے اپنے بیانات دیے، جبکہ امریکی انتظامیہ بھی ان معاملات پر گفتگو کر رہی ہے۔ دوسری طرف، عمران خان کا مؤقف ہے کہ ان کی رہائی کسی ڈیل کا حصہ نہیں ہے۔ وہ اپنے کیسز کا سامنا کریں گے اور خود کو بے گناہ ثابت کرنے کے لیے قانونی جنگ لڑیں گے۔
امریکی مؤقف اور عوامی تاثر
تجزیہ کار شکیل انجم نے کہا کہ امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے کوئی واضح پالیسی بیان سامنے نہیں آیا۔ میتھیو ملر کے ذاتی بیانات اور ٹویٹس کے باوجود، یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکہ واقعی عمران خان کی رہائی کے لیے سنجیدہ ہے۔ اس کے لیے امریکی انتظامیہ کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان آنا ضروری ہے تاکہ واضح ہو سکے کہ ان کی پالیسی کیا ہے۔
نتیجہ
یہ واضح ہے کہ موجودہ صورتحال میں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے جواز پر قائم ہیں۔ مذاکرات کے لیے کوششیں جاری ہیں، لیکن بین الاقوامی دباؤ اور ریاستی وقار کے درمیان توازن قائم رکھنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ حکومت اور بانی پی ٹی آئی کو مل کر معاملات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ ملکی سیاسی استحکام بحال ہو سکے۔
مزید پڑھیں
کیا بانی پی ٹی آئی کے دور میں قومی ادارے اسرائیلی اثاثے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کرتے رہے؟