لاہور: آلودگی کے حوالے سے ایک اور سنگین چیلنج
صوبائی دارالحکومت لاہور ایک بار پھر آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا ہے، جہاں ایئر کوالٹی انڈیکس (اے کیو آئی) خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔ گزشتہ روز اے کیو آئی 394 اور آج 326 ریکارڈ کیا گیا۔
آلودگی کی وجوہات اور اثرات
اے کیو آئی فضا میں موجود آلودہ ذرات کی مقدار کی پیمائش کرتا ہے، جس میں باریک ذرات (پی ایم 2.5)، موٹے ذرات (پی ایم 10)، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (این او 2)، اور اوزون (او 3) شامل ہیں۔ 100 سے زیادہ کا اے کیو آئی ’مضر صحت‘ سمجھا جاتا ہے، جبکہ 150 سے زیادہ ’بہت زیادہ مضر صحت‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ صورتحال بنیادی طور پر فصلوں کی باقیات کے جلانے اور صنعتی اخراج کی وجہ سے پیدا ہونے والے اسموگ کے بحران کی وجہ سے ہے۔
خطرناک اسموگ کی موجودگی کے باعث شہریوں کو کئی صحت کے مسائل کا سامنا ہے، جن میں کھانسی، سانس لینے میں دشواری، آنکھوں میں جلن، اور جلد کے انفیکشن شامل ہیں۔ خاص طور پر بچے، بوڑھے، اور وہ افراد جو پہلے سے سانس یا دل کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
حکومت کی جانب سے اقدامات
پنجاب حکومت نے اسموگ کے بحران پر قابو پانے کے لیے صحت عامہ کے تحفظ کے لیے فوری اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔ سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے حال ہی میں صوبائی محکمہ زراعت کے ہیڈکوارٹرز میں ایک تقریب کے دوران ’اینٹی اسموگ اسکواڈ‘ کا اجرا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسکواڈ اسموگ سے پاک پنجاب کی جانب ایک اہم قدم ہے۔
کسانوں کی آگاہی اور عملی اقدامات
اس موقع پر، مریم اورنگزیب نے بتایا کہ یہ اسکواڈ کاشتکاروں کو فصلوں کی باقیات کو جلانے کے خطرات سے آگاہ کرے گا، سپر سیڈرز کے استعمال کو فروغ دے گا، اور باقیات کو ٹھکانے لگانے کے متبادل طریقے فراہم کرے گا۔ ان کو اسموگ سے متاثرہ علاقوں کے دورے کے لیے گاڑیاں بھی فراہم کی گئی ہیں۔
سینئر وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ اسکواڈ انتباہ جاری کرے گا اور ضرورت پڑنے پر بروقت کارروائی کرے گا، اور فضائی آلودگی میں کردار ادا کرنے والے عوامل کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائے گا۔
مستقبل کی راہیں
مریم اورنگزیب نے کہا کہ اسموگ کی روک تھام کے اقدامات کے مثبت اثرات 8 سے 10 سال میں نظر آئیں گے۔ مزید برآں، صوبے میں ماحولیاتی تحفظ کو نصاب میں شامل کیا گیا ہے، اور انہوں نے کسانوں پر زور دیا کہ وہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے گریز کریں، کیونکہ یہ نہ صرف فصلوں بلکہ ان کے بچوں کی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔