حماس کا موقف اور سینئر قیادت کا بیان
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے سینئر رہنماؤں نے اعلان کیا ہے۔ کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام تک اپنے ہتھیار نہ ڈالنے کے عزم پر قائم رہیں گے۔ سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے ایک انٹرویو میں کہا کہ کسی بھی مزاحمتی تحریک نے آزادی حاصل ہونے سے پہلے اپنے اسلحے کو ترک نہیں کیا۔ خواجہ جنوبی افریقہ، ویتنام، الجزائر اور دیگر مثالوں کا حوالہ دیا گیا۔
ٹرمپ کے منصوبے پر حماس کی شرائط
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کے حوالے سے 20 نکاتی ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔ جس میں جنگ بندی، یرغمالیوں کی رہائی، مرحلہ وار انخلا اور حماس کا غیر مسلح ہونا شامل ہیں۔ مگر حماس کا موقف واضح ہے۔ اگر تک اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل انخلا اور مستقل جنگ بندی کی ضمانت نہ دیں، اور فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی یقین دہانی نہ کرائی جائے، وہ اپنے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
ترمیمی مطالبہ اور باضابطہ فیصلہ
محمد نزال نے کہا۔ کہ حماس اس منصوبے پر غور کر رہی ہے اور جلد ہی اپنے باضابطہ موقف کا اعلان کرے گی۔ ان کا کہنا تھا۔ کہ حماس بطور فلسطینی مزاحمتی قوت اپنے عوام کے مفاد میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ اور کوئی بیرونی دباؤ انہیں یہ حق سلب نہیں کر سکتا۔
ماضی کی مثالیں اور مزاحمتی تحریکوں کا تسلسل
نزال نے تاریخی حوالوں سے بتایا کہ آزاد ہونے والی متعدد تحریکوں، جن میں جنوبی افریقہ، ویتنام اور الجزائر شامل ہیں۔ نے آزادی سے قبل اسلحے کی ضبطگی کو قبول نہیں کیا۔ ان کے بقول اسی تناظر میں حماس بھی اپنے موقف کو دیکھ رہی ہے اور وہ تب تک اپنے ہتھیار برقرار رکھیں گے جب تک حصولِ خودمختاری کے واضح اور عملی مراحل طے نہ ہو جائیں۔
نتیجہ خیز امکانات اور بین الاقوامی ردعمل
اگر حماس باضابطہ طور پر ٹرمپ کے منصوبے کی منظوری نہ دے تو منصوبے پر عمل درآمد مشکل ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اس میں حماس کی مرکزی شمولیت اور منظوری ضروری ۔سمجھی گئی ہے۔ دوسری جانب، اگر حماس شرائط مانگے جانے والی بنیادی ضمانتیں حاصل کر لے تو ممکنہ طور پر قیام امن کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ مگر موجودہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ ابھی سنگین سیاسی و عسکری اختلافات برقرار ہیں۔
مزید پڑھیں
پریس کلب میں صحافیوں پر تشدد، وزیرِ داخلہ نے رپورٹ طلب کرلی