امن منصوبے کی شرائط اور اہم نکات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لیے ایک جامع امن منصوبہ پیش کیا ہے۔ جسے اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ منصوبے کے تحت سب سے پہلے جنگ بندی ہوگی، پھر حماس کو 72 گھنٹوں میں یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانی ہوگی۔ مزید یہ کہ حماس کو مکمل طور پر غیر مسلح کیا جائے گا اور اسرائیلی افواج مرحلہ وار غزہ سے انخلا کریں گی۔
عالمی ردعمل اور حمایت
یہ امن منصوبہ صرف امریکا اور اسرائیل کی حمایت تک محدود نہیں۔ بلکہ کئی عالمی طاقتوں، عرب اور مسلم ممالک نے بھی اس تجویز کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ عرب دنیا کی بڑی شخصیات نے امید ظاہر کی ہے۔ کہ اس معاہدے سے خطے میں امن قائم ہوسکے گا۔ تاہم، حماس نے ابھی تک باضابطہ طور پر جواب نہیں دیا۔
ٹرمپ کا سخت مؤقف
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ہمیں صرف ایک دستخط چاہیے۔ اور اگر وہ نہ ہوا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حماس نے تعاون نہ کیا۔ تو انہیں جہنم کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ امریکا اس منصوبے کو کسی بھی قیمت پر عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔
حماس اور قطر کی مشاورت
فلسطینی ذرائع کے مطابق، حماس نے اپنی اندرون و بیرون ملک قیادت کے ساتھ مشاورت کا آغاز کردیا ہے۔ یہ عمل پیچیدہ ہونے کے باعث وقت طلب ہے۔ دوسری جانب قطر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ حماس اور ترکی کے ساتھ ملاقات کرے گا۔ تاکہ اس منصوبے پر مزید پیشرفت کی جاسکے۔
مستقبل کی سیاسی صورتحال
منصوبے کے تحت حماس کو مستقبل کی فلسطینی حکومت سے مکمل طور پر الگ کردیا جائے گا۔ تاہم جو ارکان پرامن سیاسی کردار اپنائیں گے۔ انہیں عام معافی دینے کی شق بھی شامل ہے۔ یہ معاہدہ اگر طے پایا تو اکتوبر 2023 سے جاری جنگ کے اختتام اور ایک نئے سیاسی باب کے آغاز کا سبب بن سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
علیمہ خان کو پارٹی سربراہ بنانے کی کوششیں: علی امین گنڈا پور