9 مئی کی معافی کا تقاضا
ایک وقت تھا جو بیت چکا۔ آج پی ٹی آئی سے 9 مئی کی معافی یا بامعنی مذاکرات کی امید رکھنا جلتے ریگزاروں میں گلاب تلاش کرنے کے مترادف ہے۔ بار بار کی غلطیوں اور بے حکمتیوں نے جماعت کو ایسی کیفیت میں ڈال دیا ہے جہاں وہ اپنے اعصاب پر قابو کھو بیٹھی ہے۔
معافی کی بنیادی شرطیں
معافی دو مرحلوں پر مشتمل ہوتی ہے: پہلے اعتراف اور پھر تلافی۔ جب تک کوئی فرد اپنی غلطی کھلے دل سے تسلیم نہ کرے، سچی معافی ممکن نہیں۔ اس کے بعد لازم ہے کہ وہ نہ صرف اپنی لغزش کا ازالہ کرے بلکہ قانون کے آگے خود کو پیش کرے۔
عمران خان کا طرزِ عمل
سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان یہ سب کچھ کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ ان کے 9 مئی سے پہلے اور بعد کے رویے دیکھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ان میں نہ ندامت ہے نہ پچھتاوا۔ گرفتاری کے دو دن بعد بھی وہ فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے اور فسادات کی مذمت تک نہ کی۔
9 مئی کا پہلا ردعمل
گرفتاری کے فوراً بعد عمران خان کا پہلا جملہ یہی تھا کہ اگر رینجرز اس طرح پکڑیں گے تو ردعمل بھی انہی کے خلاف ہوگا۔ بعد میں اس مؤقف کو بدل کر فالس فلیگ آپریشن کا بیانیہ بنایا گیا جو آج بھی جماعت کے رہنما دہراتے ہیں۔ اس بیانیے نے اعتراف اور معافی کی ہر راہ مسدود کر دی۔
زمان پارک اور جوڈیشل کمپلیکس واقعات
9 مئی سے پہلے بھی کئی بار ایسا ہوا کہ عمران خان گرفتاری سے بچتے رہے۔ زمان پارک میں پولیس کے خلاف کارکنوں نے شدید مزاحمت کی، گاڑیاں جلائیں اور اہلکار زخمی کیے۔ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں بھی یہی تماشا دہرایا گیا۔ کیا یہ سب بھی فوج کے کھاتے میں ڈال دینا درست ہے؟
بار بار کا تصادم
مارچ میں بھی جلسوں اور ریلیوں نے عدالتوں کو محاصرے میں بدل دیا۔ پولیس پر حملے، گاڑیوں کو آگ لگانا اور امن و امان کو چیلنج کرنا معمول بن گیا۔ ان حالات میں یہ دعویٰ کہ سب کچھ فالس فلیگ تھا، حقیقت سے کوسوں دور لگتا ہے۔
نتیجہ
سوا دو سال گزرنے کے باوجود پی ٹی آئی اعتراف کے قریب بھی نہیں پہنچی۔ معافی اور تلافی کا تقاضا محض خواب ہے۔ رہی بات بامعنی مذاکرات کی، تو ایسی کوششیں اس وقت تک لاحاصل ہیں جب تک اعتراف اور ندامت کا پہلا قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ یوں یہ جماعت خود کو ایک ٹوٹی کشتی کی مانند بنا بیٹھی ہے جو طوفانی موجوں کے رحم و کرم پر ہے۔
مزید پڑھیں