رہنماؤں کی تفصیلی رائے
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انتخابی نشان کے حوالے سے جاری قانونی اور سیاسی بحران پر مختلف سیاسی رہنماؤں نے اپنی تفصیلی رائے کا اظہار کیا ہے۔ یہ بحث اس وقت شدت اختیار کر گئی جب الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان پر سوالات اٹھائے اور انٹرا پارٹی الیکشنز کی شفافیت کو چیلنج کیا۔
انٹراپارٹی الیکشنز کی قانونی حیثیت پر شرمیلا فاروقی کی رائے
پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے اسٹیٹ کرافٹ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان لینے کے وقت ہی ان کے انٹراپارٹی الیکشنز پر اعتراضات سامنے آ گئے تھے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ پی ٹی آئی کے وکلاء الیکشن کمیشن میں مؤثر دفاع نہیں کر سکے۔ ان کے مطابق، یہ معاملہ ابتداء ہی سے قانونی پیچیدگیوں کا شکار رہا ہے۔
ریزرو سیٹس اور انتخابی اصلاحات
شرمیلا فاروقی نے مزید کہا کہ اگست 2024 میں قومی اسمبلی کے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کی گئی، جس کے مطابق اگر کوئی آزاد امیدوار بعد میں کسی جماعت میں شامل ہو، تو وہ ریزرو سیٹ کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ اس ترمیم نے بھی پی ٹی آئی کی قانونی پوزیشن کو مزید کمزور کر دیا۔
افنان اللہ خان کی جانب سے پی ٹی آئی کے قانون پر تنقید
مسلم لیگ (ن) کے رہنما افنان اللہ خان نے پی ٹی آئی کے بیانیے کو دوغلا قرار دیتے ہوئے کہا کہ جس قانون کے تحت انتخابی نشان واپس لیا گیا، وہ خود پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں بنایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون کا مقصد اپنے سیاسی مخالفین کو نقصان پہنچانا تھا، لیکن اب یہی قانون پی ٹی آئی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔
ملک احمد خان بھچر: پنجاب میں سیاسی فسطائیت کا الزام
پی ٹی آئی کے رہنما ملک احمد خان بھچر نے بجٹ سیشن کے دوران اپوزیشن کے احتجاج کو معمول کا حصہ قرار دیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ اسپیکر پنجاب اسمبلی پر دباؤ ڈالا گیا اور انہیں چیف منسٹر کی ریڈ لائن نہ پار کرنے کا حکم ملا۔ انہوں نے پنجاب کی موجودہ حکومت کو فسطائیت کی مثال قرار دیا اور کہا کہ اسمبلی کی کمیٹیاں صرف علامتی ہوتی ہیں، جن میں پہلے ہی حکومت کی اکثریت ہوتی ہے۔
احمد بلال محبوب: جزوی غلطیاں پی ٹی آئی کی بھی
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اس بحران کو جزوی طور پر پی ٹی آئی کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ قرار دیا، لیکن ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بھی بعض امور کو غلط سمجھا گیا۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پانچ میں سے ایک رکن کی رائے تھی کہ یہ نشستیں نہ پی ٹی آئی کو دی جائیں اور نہ ہی دیگر جماعتوں کو، لیکن اکثریتی فیصلہ نشستوں کو تقسیم کرنے کے حق میں تھا۔
مزید پڑھیں
پی ٹی آئی کا ارکان اسمبلی سے ایک بار پھر وفاداری کا حلف لینے کا اعلان