گنڈاپور کو الیکشن میں ٹکر
پاکستان کی سیاست میں ایک اور گرما گرم بیان بازی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے بھائی انجینیئر ضیاء الرحمان نے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کو براہِ راست الیکشن لڑنے کا چیلنج قبول کر لیا ہے، مگر ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ گنڈاپور کی سیاسی حیثیت مولانا کے برابر نہیں۔
ویڈیو بیان میں سخت الفاظ اور واضح پیغام
جاری ویڈیو بیان میں انجینیئر ضیاء الرحمان نے کہا: علی امین گنڈاپور! تمہارا چیلنج قبول ہے۔ لیکن تمہاری اوقات نہیں کہ مولانا فضل الرحمان تمہارے مقابلے میں آئیں۔ پہلے مفتی محمود کے اس بیٹے سے مقابلہ کرو جو تمہیں سیاسی اور نظریاتی لحاظ سے مات دینے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی امین کو خود بھی یہ بات سمجھ آ چکی ہے کہ ان کا سیاسی زوال قریب ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ان کے اندازِ گفتگو میں بوکھلاہٹ اور تلخی نمایاں ہے۔
سیاسی اور خاندانی سطح پر الزامات
ضیاء الرحمان نے کہا کہ: میں نے ڈی آئی خان کے چوک میں کھڑے ہو کر کہا تھا کہ اگر تمہارا ڈی این اے کیا گیا تو تم گنڈاپور خاندان کے نہیں نکلو گے۔ گنڈاپور قبیلہ بہادری، غیرت اور سچائی کا نشان ہے، اور تم ان میں شامل نہیں۔ انہوں نے علی امین کے خاندان، سیاسی روایات اور اخلاقی پوزیشن پر سوالات اٹھائے، اور کہا کہ وہ نہ خاندانی وقار کے حامل ہیں اور نہ ہی سیاسی برداشت کے۔
گنڈاپور خاندان پر طنز اور قیادت پر تنقید
ویڈیو میں ضیاء الرحمان نے یہ بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمان وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تمہارے لیڈر کو اقتدار سے گھسیٹ کر باہر نکالا، اور اب تم مولانا کو چیلنج دینے کی جرات کرتے ہو؟ تمہیں تو پہلے اپنے بھائی سے استعفیٰ دلوا کر مجھے میدان میں اتارنا ہوگا۔
عوامی ردعمل اور انتخابی سیاست کی نئی لہر
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ بیان آنے والے دنوں میں خیبر پختونخوا کی سیاست میں ہلچل مچا سکتا ہے۔ عوام کو اب ممکنہ طور پر مولانا فضل الرحمان کے خاندان اور گنڈاپور کی جماعت کے درمیان براہِ راست انتخابی مقابلہ دیکھنے کو مل سکتا ہے، جو روایتی سیاسی ماحول سے ہٹ کر شخصی سیاست کا ایک نیا باب کھول سکتا ہے۔
نتیجہ
ضیاء الرحمان کا یہ بیان نہ صرف ذاتی سطح پر ایک سخت پیغام ہے بلکہ مولانا فضل الرحمان کی سیاسی پوزیشن کو بھی نمایاں کرتا ہے۔ علی امین گنڈاپور کے لیے یہ چیلنج صرف ایک انفرادی مقابلہ نہیں بلکہ ایک نظریاتی اور خاندانی امتحان بھی بن چکا ہے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا اس چیلنج کا جواب کس انداز میں دیتے ہیں، اور آیا کہ وہ حقیقتاً میدان میں اتر کر مفتی محمود کے بیٹے کا سامنا کرتے ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں