فضل الرحمان کا دوٹوک اعلان
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ صرف ایران پر اسرائیلی جارحیت کی مذمت نہیں کر رہے بلکہ ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔
ملین مارچ سے خطاب: امن کا پیغام اور بدامنی پر تشویش
حیدرآباد میں ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ جنگ کے حامی نہیں بلکہ امن کے داعی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور اس کے عوام کو بدامنی کی شکایات ہیں، اور بدامنی ایک سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اگر امن نہ ہو تو معیشت، تعلیم اور کاروبار سب ختم ہو جاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کا ایک ایک کارکن قیامِ امن کے لیے میدان عمل میں موجود ہے اور ہم سندھ میں بھی امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اسرائیل کی حقیقت اور عالمی رویہ
مولانا فضل الرحمان نے اسرائیل کو عرب دنیا نہیں بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے ناسور قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ:
اسرائیل کو اپنا خون چاٹنا پڑے گا۔ ڈیڑھ سال سے مسلسل غزہ پر بمباری جاری ہے، 60 ہزار سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں، کیا اقوام متحدہ کی کوئی قرارداد ایسی بربریت کی اجازت دیتی ہے؟ انہوں نے اقوام متحدہ کو امریکا کی لونڈی قرار دیا اور کہا کہ جیسا امریکا ہانکتا ہے، ویسے ہی فیصلے کیے جاتے ہیں۔
عالمی دوہرا معیار: نیتن یاہو اور صدام کا موازنہ
فضل الرحمان نے نیتن یاہو کو جنگی مجرم قرار دیا اور کہا کہ: عالمی عدالت نے نیتن یاہو کی گرفتاری کا حکم دیا مگر امریکا اور یورپ اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں۔ انہوں نے کویت پر صدام حسین کے قبضے کی مثال دی اور کہا کہ تب امریکا اور یورپ پوری فوج لے کر آئے، صدام کو پھانسی دی، مگر اسرائیل کے مظالم پر سب خاموش ہیں۔
اسلامی دنیا کو خبردار کرنے کا اعلان
فضل الرحمان نے کہا کہ آج اگر ایران کی باری ہے تو کل سعودی عرب یا پاکستان کی باری ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: ہم صرف مذمت نہیں کر رہے، ہم ایران کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی آزادی کے لیے بھی ہم کھڑے ہیں اور اگر کسی نے حرمین شریفین کی طرف آنکھ اٹھائی تو ہر مسلمان خون بہانے کو تیار ہوگا۔
نتیجہ
مولانا فضل الرحمان کا بیان واضح طور پر اسلامی دنیا کو جھنجھوڑنے کی ایک کوشش ہے۔ انہوں نے دنیا کے دوہرے معیار، اقوام متحدہ کی ناکامی، اور مسلمانوں کی بے حسی پر تنقید کرتے ہوئے ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ موقف نہ صرف ایک مذہبی رہنما کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اسلامی اتحاد کی ضرورت کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
مزید پڑھیں