نریندر مودی کا اشتعال انگیز خطاب
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات میں سیاسی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مخالف سخت بیان دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو دہشتگردی کے خلاف خود کھڑا ہونا ہوگا، روٹی کھائیں، سکھ سے جئیں، ورنہ میری گولی تو ہے ہی۔ یہ بیان نہ صرف نفرت پر مبنی تھا بلکہ جنوبی ایشیا کے پہلے سے کشیدہ حالات کو مزید بگاڑنے کی کوشش بھی۔ مودی کے لہجے نے ایک بار پھر بھارتی انتہا پسندی کی جھلک دکھائی ہے، جو پاکستان دشمنی کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔
خواجہ آصف کا سخت اور دوٹوک ردعمل
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھمیں گفتگو کرتے ہوئے مودی کو بھرپور جواب دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی بالآخر اپنی اوقات پر آگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ جب اقتدار میں آتے ہیں تو صرف اپنے ملک کو نہیں بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ ان کے مطابق مودی کو اپنی سیاسی شکست کا احساس ہو چکا ہے اور وہ ابھی تک صدمے میں ہیں۔
سیاسی ناکامی کی علامت خواجہ آصف کے مطابق مودی کا حالیہ لہجہ ان کی ذہنی حالت، دباؤ اور مایوسی کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی وزیراعظم اپنی عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں، اور اب وہ پاکستان دشمنی کو آخری ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ یہ بیان اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مودی اندرونی سیاسی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کا بیانیہ صرف نفرت پھیلا کر عوامی توجہ حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو طویل المدتی طور پر بھارت کے لیے نقصان دہ ہے۔
علیمہ خان کے بیان پر حکومتی مؤقف
اسی انٹرویو میں خواجہ آصف نے بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے حالیہ بیان پر بھی تبصرہ کیا۔ علیمہ خان نے حکومت سے مذاکرات کی اپیل کی تھی کہ بیٹھ کر بات کریں اور عمران خان کی رہائی کے لیے شرائط طے کریں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ان کے لہجے میں راستہ نکالنے کی کوشش محسوس ہو رہی ہے۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ حکومت اس معاملے پر غور کر سکتی ہے، مگر یہ انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ درحقیقت کیا پیغام دینا چاہتی ہیں۔
نتیجہ
مودی کے بیانات بھارت کے اندر شدت پسندی کو فروغ دیتے ہیں جبکہ پاکستان نے ہر بار تحمل، دوٹوک اور سیاسی شعور سے جواب دیا ہے۔ خواجہ آصف کا ردعمل صرف دفاع نہیں بلکہ بھارتی سیاسی چالوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش بھی ہے۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ پاک بھارت تعلقات صرف سرحدوں تک محدود نہیں، بلکہ سیاسی بیانات کی دنیا میں بھی کشیدگی اپنی انتہا پر ہے۔ خطے کا امن صرف تب ہی ممکن ہے جب نفرت کے بجائے مکالمے کو فوقیت دی جائے۔
مزید پڑھیں
یومِ تکبیر: ایٹمی طاقت بننا دانشمندانہ فیصلہ تھا، صدر و وزیر اعظم کی مبارکباد