بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی
حالیہ دنوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی دیکھنے کو ملی ہے، خاص طور پر فوجی تناؤ میں واضح کمی آئی ہے، جس پر دفاعی اور سفارتی ماہرین کی جانب سے مختلف زاویوں سے تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ ایکسپریس نیوز کے پروگرام “کل تک” میں اس حوالے سے تفصیلی گفتگو کی گئی، جس میں ریٹائرڈ دفاعی افسران اور سابق سفیر نے اہم نکات بیان کیے۔
بھارت اور پاکستان کے فوجی تناؤ میں کمی یا وقتی حکمت عملی؟
(ر) میجر جنرل طارق رشید خان کے مطابق، دونوں ملکوں کی جانب سے فوجوں کی واپسی اس بات کی علامت ہے کہ بات چیت کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ: فوجوں کا ہٹایا جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ ٹینشن ڈیفیوز ہو رہی ہے، مگر نیتیں راتوں رات بدل سکتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت کی موجودہ صورتحال صرف بیانات تک محدود ہے تاکہ وہ اپنی عوام کے سامنے فیس سیونگ کر سکے۔
جنگ کی حقیقت۔ سیاسی بیانیے، ویڈیوز اور بھارت-پاکستان تنازعہ
(ر) ایئر وائس مارشل اعجاز محمود نے موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جنگ کے نتائج پر ہمیشہ ایک دھند چھائی رہتی ہے۔ جیتنے والا اپنی سچائی کو مختلف ثبوتوں سے ثابت کرتا ہے، جیسے کہ ویڈیوز اور ڈیجیٹل ریکارڈنگ، لیکن ہارنے والا اکثر ماننے سے انکاری ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پروفیشنل فورسز میں ہار تسلیم کرنے کی روایت ہوتی ہے، مگر جب بیانیہ سیاسی قیادت بناتی ہے تو سچ چھپایا جا سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی میں کمی کے موجودہ تناظر میں، بیانیے اور سچائی کے درمیان فرق کو سمجھنا پہلے سے زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
چین کے ساتھ دفاعی تعاون: پاکستان کے لیے ایک تاریخی اسٹریٹیجک انحصار
اسی تناظر میں، سابق سفیر مسعود خالد نے گفتگو کے دوران چین اور پاکستان کے دیرینہ دفاعی تعاون پر روشنی ڈالی۔ اُن کے بقول، 1965ء کی جنگ کے دوران جب امریکہ نے اپنی فوجی امداد معطل کی، تو چین نے فوری طور پر ایمرجنسی سپلائز فراہم کر کے پاکستان کا ساتھ دیا۔ مزید برآں، انہوں نے انکشاف کیا کہ 1960ء کی دہائی کے اختتام پر چین نے پاکستان کو 300 ارب ڈالر کا کریڈٹ دیا، جسے دفاعی سازوسامان اور معاشی منصوبوں میں بروئے کار لایا گیا۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اُس وقت چین خود بھی معاشی طور پر ایک پسماندہ ملک تھا، لہٰذا یہ ایک بڑی اور غیرمعمولی قربانی تھی۔ یوں، وقت کے ساتھ یہ تعلق محض دفاعی اشتراک سے آگے بڑھ کر ایک مضبوط اور دیرپا شراکت داری میں ڈھل گیا
نتیجہ
ونوں ملکوں کی قیادتوں اور دفاعی اداروں کی جانب سے حالیہ اقدامات بلاشبہ جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے لیے ایک مثبت اشارہ ہیں۔ مزید یہ کہ، دفاعی ماہرین اور سفارتکاروں کی آراء ظاہر کرتی ہیں کہ نہ صرف موجودہ تناؤ میں کمی آئی ہے بلکہ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بھی ایک مضبوط دفاعی بنیاد فراہم کر رہے ہیں۔ لہٰذا، آگے بڑھنے کے لیے سیاسی بیانیے سے نکل کر حقیقت پر مبنی بات چیت اور شفافیت وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں