پی ٹی آئی کو نظرانداز کر کے قومی پالیسی سازی ممکن نہیں
ایکسپریس میڈیا گروپ کے پروگرام ایکسپرٹس میں سینئر صحافیوں اور تجزیہ کاروں نے پی ٹی آئی کی موجودہ سیاسی صورتِ حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ تجزیوں میں واضح کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کو نظرانداز کر کے ملک میں قومی سطح کی کوئی بھی حکمت عملی یا پالیسی مرتب نہیں کی جا سکتی۔ تمام تجزیہ کاروں نے اس بات پر زور دیا کہ چاہے اختلاف ہو یا اتفاق، پی ٹی آئی کو قومی معاملات میں شامل کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی کے خلاف سخت اقدامات
ایاز خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو موجودہ حالات میں جن مشکلات کا سامنا ہے، وہ ماضی میں مسلم لیگ (ن) کو درپیش نہیں تھیں۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کا کوئی بھی رہنما زبان کھولتا ہے تو فوراً گرفتار کر لیا جاتا ہے، جو کہ ایک غیرجمہوری طرزِ عمل ہے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ اگر منگل کو وکلا اور جمعرات کو فیملی کی ملاقات طے ہے تو علیمہ خان اور دیگر بہنیں اڈیالہ جیل میں کس مقصد کے تحت موجود تھیں۔
سوشل میڈیا اور پروپیگنڈا کا کردار
عامر الیاس رانا نے عمران خان کے سوشل میڈیا نیٹ ورک کے اثرات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود پارٹی پر اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خان صاحب کو خاموش کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے، مگر وہ مسلسل بیانیہ دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کے اندر اختلافات موجود ہیں، لیکن پارٹی کا سوشل میڈیا اب بھی متحرک ہے۔
پارٹی میں گروپ بندی مگر ووٹ بینک برقرار
فیصل حسین نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اندر گروپ بندی ہو چکی ہے لیکن یہ تقسیم ووٹ بینک کو متاثر نہیں کرے گی۔ ان کے مطابق عمران خان اب ایک طاقتور سیاسی قیدی بن چکے ہیں، جنہیں باہر آنے کے لیے کسی پر انحصار نہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان، خیبر پختونخوا اور دیگر معاملات پر قومی حکمت عملی کی تشکیل میں پی ٹی آئی کا شامل نہ ہونا ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
احتجاج کا دائرہ کار بڑھنے کا امکان
خالد قیوم نے اس بات پر زور دیا کہ اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کے احتجاج کا اثر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے اور یہ تحریک مستقبل میں شدت اختیار کر سکتی ہے۔ انہوں نے ماضی کے سیاسی احتجاجی پس منظر کو بھی اجاگر کیا اور کہا کہ عمران خان کی فوری رہائی ممکن نظر نہیں آتی۔
عمران خان کا انکار اور سیاسی موقف
محمد الیاس نے کہا کہ عمران خان کسی قسم کے سمجھوتے پر تیار نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی مقبولیت اسی اصولی موقف کی بدولت قائم ہے۔ ان کے مطابق عمران خان باہر آ کر اپنی سیاسی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کی شرائط پر باہر آنے کو تیار نہیں۔
نتیجہ
تجزیہ کاروں کا متفقہ مؤقف یہی تھا کہ پی ٹی آئی کو سیاسی دھارے سے باہر رکھ کر قومی معاملات نہیں چلائے جا سکتے۔ ایک متفقہ قومی بیانیہ تشکیل دینے کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو ساتھ لے کر چلنا ناگزیر ہے، ورنہ مسائل مزید بگڑ سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
حکومت سے بات چیت نہیں، صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات ہوگی: عمران خان