اسلام آباد:
تلخیاں ختم کرنے کی جانب پہلا قدم
مہینوں کی کشیدگی اور سیاسی تعطل کے بعد، وفاقی حکومت اور تحریک انصاف نے ملک کو سیاسی عدم استحکام سے نکالنے کے لیے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دونوں فریقین کی جانب سے کمیٹیوں کی تشکیل اور ان کے درمیان پیر کی صبح ملاقات کے اعلان نے عوامی حلقوں میں امید اور خدشات کو جنم دیا ہے۔
اعتماد سازی کے اقدامات ضروری
سیاسی تجزیہ کاروں نے اس پیش رفت کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ دونوں فریقین کو فوری طور پر اعتماد سازی کے اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب نے تجویز دی کہ غیر مہذب زبان کے استعمال کو ختم کرنا، بیرون ملک موجود مخالف عناصر سے مکمل لاتعلقی کا اعلان کرنا، اور فوجی قیادت پر نازیبا تنقید کا خاتمہ ایسے اقدامات ہیں جو اعتماد بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو چاہیے کہ صرف ایک یا دو افراد کو بات کرنے کا اختیار دیا جائے تاکہ پارٹی کا بیانیہ یکساں اور مؤثر ہو۔
معافی اور سیاسی مفاہمت کے پہلو
نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر نعیم ملک نے کہا کہ تحریک انصاف کے رویے میں مثبت تبدیلی کی صورت میں سزا یافتہ افراد کی معافی کے لیے آرمی چیف اور صدر مملکت اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے تجویز دی کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی جذبہ خیر سگالی کے طور پر تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے موقف میں تبدیلی
سابق سفیر حسین حقانی نے نشاندہی کی کہ تحریک انصاف کی مذاکرات پر رضامندی عمران خان کے سابقہ بیانات سے مختلف ہے، جن میں وہ جیل سے انقلاب برپا کرنے کی بات کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کو دیگر سیاسی جماعتوں کو غدار یا بدمعاش قرار دینے کے بجائے ان کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوگا، تاکہ ملک میں سیاسی استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔
یہ پیش رفت اس بات کا اشارہ ہے کہ سیاسی فریقین باہمی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک نئی شروعات کرنے کو تیار ہیں، تاہم کامیابی کا انحصار عمل پر ہے۔
مزید پڑھیں
کیا حکومت پی ٹی آئی سے مذاکرات میں اسٹیبلشمنٹ کو شامل کرے گی؟ رانا ثنااللہ کا اہم بیان