کہکشاں کے مرکز میں بلیک ہول کے ارد گرد سیاروں کی موجودگی کا امکان
سائنسدانوں نے حالیہ طور پر یہ تجویز پیش کی ہے کہ ہماری کہکشاں کے مرکز میں موجود سوپر میسِو بلیک ہول کے ارد گرد سیارے ہو سکتے ہیں، یہ دریافت خلا کے بارے میں ہماری سمجھ میں نئی ممکنات کھولتی ہے۔ یہ دریافت اس وقت ہوئی جب سائنسدانوں نے سیگیٹیریس اے* نامی بلیک ہول کے قریب پہلا بائنری ستارہ سسٹم دریافت کیا۔ یہ نہ صرف ستاروں کے ایسے سخت ماحول میں موجودگی کو ظاہر کرتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ اس علاقے میں سیارے بھی موجود ہو سکتے ہیں۔
سیگیٹیریس اے* کے ارد گرد سیاروں کی موجودگی کا امکان
سیگیٹیریس اے* کے قریب بائنری ستارے کے سسٹم کی دریافت نے سائنسدانوں کو یہ امید دی ہے کہ یہاں سیارے بھی موجود ہو سکتے ہیں۔ ماضی میں سائنسدانوں کا خیال تھا کہ بلیک ہول کے قریب اتنے شدید کششِ ثقل اور تابکاری کے حالات میں ستارے تو شاید زندہ رہ سکتے ہیں، لیکن اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ سیارے ایسے ماحول میں موجود ہو سکیں۔ تاہم، اس نئی دریافت نے اس خیال کو چیلنج کیا ہے اور یہ ظاہر کیا ہے کہ بعض مخصوص حالات میں سیارے بھی بلیک ہول کے قریب وجود میں آ سکتے ہیں۔
بائنری ستارے کے سسٹم کی موجودگی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس علاقے میں استحکام پایا جا سکتا ہے، جو اس بات کا امکان ظاہر کرتا ہے کہ سیارے بھی سیگیٹیریس اے* کے کششِ ثقل کے اثر میں رہ کر وجود میں آ سکتے ہیں۔ اب سائنسدان اس علاقے پر مزید تحقیق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ یہاں موجود ممکنہ سیاروں کا پتہ چلایا جا سکے۔
مستقبل میں ان سیاروں کی دریافت
ٹیکنالوجی میں آنے والی ترقی کے ساتھ، سائنسدان پرامید ہیں کہ آئندہ آنے والے ٹیلی اسکوپ جیسے ویری لارج ٹیلی اسکوپ (VLT) اور ایکسٹریم لی لارج ٹیلی اسکوپ (ELT) ان سیاروں کی تلاش میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ان اپ گریڈ شدہ آلات کی مدد سے سائنسدان خلا میں گہرائی سے جائزہ لے سکیں گے اور اس علاقے کے بارے میں زیادہ درست معلومات حاصل کر سکیں گے۔ سیاروں کی بلیک ہول کے ارد گرد موجودگی کی دریافت خلا کی نئی جہتوں کو سامنے لا سکتی ہے اور ہماری کہکشاں کے بارے میں ہمارے نظریات کو چیلنج کر سکتی ہے۔
نتیجتاً، سیگیٹیریس اے* کے قریب بائنری ستارے کے سسٹم کی دریافت نے اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ یہاں سیارے موجود ہو سکتے ہیں۔ یہ دریافت خلا کی سمجھ کو نئی جہت فراہم کرتی ہے، اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے ساتھ ہم شاید مستقبل میں ان دور دراز سیاروں کو براہِ راست دیکھ سکیں گے۔