حملوں میں شمولیت کا عندیہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر اسرائیلی حملوں میں امریکا کے شامل ہونے کا اشارہ دے دیا ہے۔ خطے میں تیزی سے بدلتی صورتحال کے پیش نظر وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی مشیروں کا اہم اجلاس طلب کیا گیا، جس میں مستقبل کی حکمتِ عملی پر غور کیا گیا۔
ایران کے خلاف امریکی شمولیت پر مشاورت
امریکا کے نائب صدر جے ڈی وینس نے بیان دیا ہے کہ صدر ٹرمپ اس وقت ایران کے یورینیئم افزودگی کے عمل کو روکنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: صدر ٹرمپ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ایران کو روکنے کے لیے مزید اقدامات ضروری ہیں۔ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب وائٹ ہاؤس میں صدر کی زیر صدارت قومی سلامتی مشیروں کا اجلاس منعقد ہوا، جو ایک گھنٹے سے زائد جاری رہا۔
امریکی میڈیا کا انکشاف: اسرائیل کے ساتھ مشترکہ بمباری کا امکان
امریکی اور اسرائیلی میڈیا کے مطابق اس اجلاس میں ایران پر ممکنہ فوجی کارروائی زیر غور آئی۔ ذرائع کے مطابق امریکا، اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے فردو نیوکلیئر پلانٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔اسرائیلی اہلکاروں کے مطابق اگر ایران نے نیوکلیئر پروگرام ترک نہ کیا تو امریکا خود بھی ایران پر حملہ کر سکتا ہے۔
ٹرمپ اور نیتن یاہو کا ٹیلیفونک رابطہ
اس اہم اجلاس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا۔ اگرچہ اس گفتگو کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں، مگر مبصرین کے مطابق یہ رابطہ خطے میں بڑھتی کشیدگی کے تناظر میں انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
اسرائیل کی خواہش: امریکا جنگ میں ساتھ دے
اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ امریکا ایران کے خلاف جنگ میں اس کا بھرپور ساتھ دے یا براہ راست ایران کے خلاف کارروائی کرے۔ صدر ٹرمپ کی حالیہ پالیسی بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ صرف سفارتی دباؤ سے آگے بڑھنے کے موڈ میں ہیں۔
سخت پیغام: ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ اور خامنہ ای کے مقام کا انکشاف
صدر ٹرمپ نے ایران سے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ: ہمیں مذاکرات میں دلچسپی نہیں، ہم ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ ایک سینئر امریکی اہلکار کے مطابق: صدر ٹرمپ واضح طور پر جانتے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں، اور اس ہدف کے حصول میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں علم ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کہاں موجود ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ: ابھی کے لیے انہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔
نتیجہ: مشرق وسطیٰ ایک نئی جنگ کی دہلیز پر؟
امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اس سے یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک ایک بار پھر تصادم کے قریب پہنچ چکے ہیں۔ کیا امریکا واقعی ایران پر حملہ کرے گا؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب آنے والے چند دنوں میں سامنے آ سکتا ہے۔
مزید پڑھیں
پاک امریکا تعلقات میں پیشرفت، جنرل عاصم منیر کی آج صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات طے