سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز احمد چوہدری کی ضمانت منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ان پر مجرمانہ سازش کا الزام استغاثہ کی جانب سے اب تک ثابت نہیں کیا جا سکا۔
عدالت کی تحریری فیصلہ: شواہد ناکافی، تاخیر کی وضاحت بھی غیر تسلی بخش
جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے دو سال سے قید اعجاز چوہدری کی ضمانت کا تحریری فیصلہ جاری کیا، جس میں واضح کیا گیا کہ مقدمے کے اندراج اور ضمنی بیان میں غیر معمولی تاخیر کی وضاحت نہیں کی گئی۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اعجاز چوہدری کا نام ابتدائی ایف آئی آر میں شامل نہیں تھا بلکہ انہیں ایک ماہ بعد سوشل میڈیا پر مبینہ مواد کی بنیاد پر نامزد کیا گیا۔
ضمانت کا حق: قانون کے مطابق سزا سے قبل ضمانت پر پابندی نہیں
فیصلے کے مطابق، قانون کے اصولوں کے تحت سزا سے پہلے ضمانت روکنے کا کوئی جواز نہیں، خاص طور پر جب شریک ملزم امتیاز محمود کو بھی ضمانت مل چکی ہو۔ عدالت نے اعجاز چوہدری کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا۔
کیس مزید انکوائری کے زمرے میں آتا ہے
سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ شواہد اور تحقیقات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ مقدمہ ابھی مزید انکوائری کے زمرے میں آتا ہے، لہٰذا درخواست گزار ضمانت کا حقدار ہے۔
محکمانہ ترقی پر فیصلہ: بیوروکریسی سیاسی دباؤ سے آزاد ہونی چاہیے
دوسری جانب، جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں ایک اور بنچ نے خاتون فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی گریڈ 17 میں ترقی کے مقدمے میں سروس ٹربیونل کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ عدالت نے محکمانہ کمیٹی کو حکم دیا کہ ایک ماہ میں میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔
فیصلے میں زور دیا گیا کہ سول بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے پاک ہونا چاہیے اور ریاستی ادارے کے طور پر غیر جانبداری سے کام کرنا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ بیوروکریسی کو کسی بھی حکومت کی ربڑ اسٹیمپ نہیں بننا چاہیے۔
مزید پڑھیں
بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت، سلال ڈیم کے دروازے بھی بند