حکومت کا بلاول بھٹو پر اعتماد، مذاکرات کی ذمہ داری سونپ دی
وفاقی حکومت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ثالثی کو قبول کر لیا ہے۔ اس حوالے سے حکومت نے باضابطہ طور پر بلاول بھٹو کو بات چیت کا فریضہ سونپ دیا ہے، تاکہ ملک میں جاری سیاسی تعطل کا حل نکالا جا سکے۔
بلاول بھٹو کی قومی یکجہتی پر زور
بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ملک کو درپیش مسائل، خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی بگڑتی ہوئی صورتحال، پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ قومی مفاد میں متحد ہو جائیں تاکہ دہشت گردی اور دیگر چیلنجز کا مشترکہ طور پر سامنا کیا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو یہ منفرد حیثیت حاصل ہے کہ وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے مذاکرات کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے وہ ان جماعتوں کو بھی انگیج کرنے کے لیے تیار ہیں جو حالیہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شریک نہیں ہوئیں۔
بلوچستان کو ترجیح ملنے پر تعاون کا عندیہ
بی این پی مینگل کے سربراہ اختر مینگل نے اپوزیشن کے اتحاد پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان کو درپیش مسائل کو ترجیح دی جائے تو وہ مذاکراتی عمل میں تعاون کے لیے تیار ہیں۔ ان کے مطابق، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے حالات انتہائی سنگین ہیں، اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف یکجا ہونا ہوگا۔
حکومت کی مشروط رضامندی: مذاکرات کامیاب ہوئے تو سلامتی کمیٹی اجلاس ممکن
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلاول بھٹو پی ٹی آئی کو مذاکرات پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پر رضا مند ہو جاتے ہیں، تو حکومت اجلاس دوبارہ بلانے پر تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بلاول بھٹو مذاکراتی راہ ہموار کر لیتے ہیں اور پی ٹی آئی کو اس عمل میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی پیشرفت ہوگی۔ اس کے علاوہ، رانا ثناء اللہ نے پیکا قانون کے حوالے سے بھی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کی ضرورت ناگزیر ہے، تاہم اس کے ممکنہ غلط استعمال پر مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں
رانا ثنا کا پی ٹی آئی سے مذاکرات اور قومی سلامتی اجلاس کی بحالی پر بیان سامنے آگیا