عمران خان نے اوپن لیٹر لکھا جس کا جواب کبھی نہیں آتا: فلک ناز علی امین گنڈاپور نے مریم نواز کو براہ راست چیلنج دے دیا سلمان اکرم راجہ نے شیر افضل مروت کو پارٹی سے نکالنے کی حقیقت بیان کر دی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججز نے سینیارٹی مسئلے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا

ملکی فیصلے ایوانوں کے بجائے بند کمروں میں ہو رہےہیں۔ مولانا فضل الرحمان

JUI F chairman Maulana Fazal ur Rehman criticized Pakistan's political situation, discussing the weakness of civilian leadership and the interference of the establishment in pakistani politics.

سویلین قیادت کی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کی طاقت

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر ملک کی سیاسی صورتحال پر کڑی تنقید کی ہے، خاص طور پر سویلین حکومت کی کمزوری اور اسٹیبلشمنٹ کی بڑھتی ہوئی مداخلت کو موضوع بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں کوئی حقیقی سویلین اتھارٹی موجود نہیں ہے اور تمام فیصلے بند کمروں میں کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پارلیمنٹ میں قانون سازی بغیر کسی عمل کے منظور ہو رہی ہے، اور ایوان میں اضطراب کی صورتحال برقرار ہے۔

ملک میں سویلین اتھارٹی کی عدم موجودگی

مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نکتہ اعتراض پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں آجکل جو فیصلے ہو رہے ہیں، وہ پارلیمنٹ کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ خاص اسٹیبلشمنٹ جو چاہے فیصلہ کر لے، جبکہ حکومت کو بس ان فیصلوں پر انگوٹھا لگانا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ملک میں کوئی سویلین قیادت نہیں ہے جو ریاست کی بقا کے لیے صحیح فیصلے کر سکے۔

فضل الرحمان نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ کو احسن طریقے سے چلانا اسپیکر کی ذمہ داری ہے، لیکن موجودہ حکومت اور ایوان میں کسی قسم کی کارگر قیادت کا فقدان ہے۔ اس وقت پورا ملک اضطراب میں مبتلا ہے اور عوام کی مشکلات کا کوئی حل نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جب حکومت عوام کے مفاد کے خلاف فیصلے کرتی ہے، تو پارلیمنٹ میں ان پر بحث ہونی چاہیے، لیکن حکومت نے ایک سال سے ہٹ دھرمی دکھائی ہے۔

قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں حکومتی رٹ کا فقدان

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں نہ صرف حکومت، بلکہ فوج بھی مکمل طور پر بے بس نظر آ رہی ہے۔ فضل الرحمان نے کہا کہ یہ علاقے اس حد تک بے قابو ہیں کہ اگر ان اضلاع میں آزادی کا اعلان کیا جائے تو اقوام متحدہ اسے قبول کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سالمیت کا سوال ہے اور یہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ان علاقوں میں حکومتی رٹ کو مستحکم کیا جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی مرضی کے فیصلے کرتی ہے، جبکہ سیاستدانوں کو صرف ان فیصلوں پر انگوٹھا لگانے کا عمل سونپا گیا ہے۔ ان کے مطابق، قبائلی علاقوں میں ہونے والی کشیدگی اور بلوچستان کے حالات وزیراعظم کی لاعلمی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں مسلح گروپوں کی حکمرانی ہے اور حکومت کی موجودگی کا کوئی اثر نہیں ہے۔

عالمی سیاست اور پاکستان کی پوزیشن

مولانا فضل الرحمان نے عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن پر بھی بات کی۔ انہوں نے افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اور گزشتہ چالیس سالوں سے جاری پراکسی جنگ پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں جنگ لڑنے کے لیے اپنی فوج کو جھونکا اور اس کے بعد اس جنگ کے اثرات پاکستان پر پڑے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی افغانستان میں کوئی واقعہ پیش آتا ہے، ہمارا غصہ ہمیشہ افغانستان پر نکلتا ہے، مگر کبھی ہمیں اپنے حسابات کا جائزہ بھی لینا چاہیے۔

فضل الرحمان نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان کی پالیسیوں کو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے فورمز پر فیصلہ کیا جا رہا ہے اور آئی ایم ایف پاکستان کے اداروں پر کنٹرول کر رہا ہے۔ ان کے مطابق، پاکستان میں فیصلے خود نہیں کیے جا رہے، بلکہ عالمی قوتیں اور ادارے پاکستان کی پالیسیوں کو اپنے مفاد کے مطابق ڈھال رہی ہیں۔

قبائلی علاقوں کا امن اور حکومت کی ذمہ داری

مولانا فضل الرحمان نے اپنے خطاب میں قبائلی علاقوں کے امن کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام قبائل کی طرف سے جرگہ آ چکا ہے اور ان کی یہی درخواست ہے کہ ان کے علاقوں میں امن قائم کیا جائے۔ ان کے مطابق، قبائلی علاقوں کی عوام کو امن کی ضرورت ہے، اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی آواز سنے اور ان کے مسائل حل کرے۔

انہوں نے کہا کہ پشاور میں ہونے والے جرگے میں بھی یہی بات سامنے آئی کہ قبائل امن چاہتے ہیں، اور یہ صرف حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے مسائل حل کرے۔ مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ سویلین قیادت کی مضبوطی کے بغیر ملک میں امن و استحکام ممکن نہیں ہے۔

مزید پڑھیں
عدلیہ کو دوٹوک فیصلہ کرنا ہوگا بس اب بہت ہو چکا، عمر ایوب

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

بلیک فرائیڈے

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

:متعلقہ مضامین