مریخ پر بستیوں کی تعمیر: انسانی خون کا انوکھا کردار
مریخ پر مستقبل کی بستیوں کی تعمیر کے لیے سائنسدانوں نے ایک غیر معمولی اور حیرت انگیز تجویز پیش کی ہے، جو انسانی خون کے استعمال پر مبنی ہے۔ یہ تحقیق اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ مریخ پر انسانی آبادکاری کے لیے زمین سے سامان بھیجنا ایک انتہائی مشکل اور غیر عملی عمل ہو سکتا ہے۔ مریخ کی زمین کا استعمال کرنا ہی اس مسئلے کا حقیقی حل ہے، اور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہی وہ طریقہ ہے جس سے مریخ پر انسانوں کے رہنے کے لیے بستیوں کا قیام ممکن ہو سکے گا۔
مریخ پر تعمیر کے لیے خون کا استعمال
یونیورسٹی آف تہران کی حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مریخ کی مٹی کو انسان کے خون میں موجود پروٹین سیرم البومِن کے ساتھ ملا کر ایک نیا مواد تیار کیا جا سکتا ہے جسے “آسٹروکریٹ” کہا جاتا ہے۔ یہ مواد ایک قسم کا سیمنٹ ہے جو اپنے اندر انتہائی مضبوطی رکھتا ہے اور تجربات سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہ مریخی کنکریٹ کے مقابلے میں تین سو گنا زیادہ مضبوط ہے۔ اس طریقہ کار کی کامیابی کا راز اس میں موجود پروٹین کی خصوصیات میں چھپاہوا ہے، جو مریخ کے ماحول میں موجود مٹی کو اس انداز میں جوڑتا ہے کہ وہ مضبوط اور پائیدار مواد بن جاتا ہے۔
دیگر جسمانی مائعات کا ممکنہ استعمال
مگر یہ تکنیک صرف خون تک محدود نہیں ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ مریخ پر بسنے کے لیے جسم کے دیگر قدرتی مائعات جیسے پیشاب، پسینہ، اور آنسو بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ان مائعات میں موجود کاربیمائڈ کی خصوصیات سیمنٹ کی جوڑنے کی صلاحیت کو مزید بڑھاتی ہیں، اور یہ مریخ پر بستیوں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کے ذریعے بسنے والے افراد کے جسمانی وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے نہ صرف رہائشی علاقے بنائے جا سکتے ہیں بلکہ یہ عمل مریخ پر آبادکاری کے امکانات کو مزید مضبوط بناتا ہے۔
آسٹروکریٹ کے فوائد اور چیلنجز
آسٹروکریٹ کے استعمال کے کئی عملی فوائد بھی ہیں۔ سب سے پہلے، اس سے زمین سے مریخ تک بھاری سامان بھیجنے کی ضرورت کم ہو جائے گی، کیونکہ مریخ پر موجود قدرتی وسائل سے ہی رہائشی مواد حاصل کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ، یہ مواد انسان کے جسم کے قدرتی وسائل پر انحصار کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ مریخ پر بسنے والے افراد کو اپنی جسمانی صحت کے حوالے سے کم سے کم باہر کے وسائل کی ضرورت پڑے گی۔ اس کے ساتھ ہی، آسٹروکریٹ مریخ کے سخت اور غیر معمولی ماحول میں ایک پائیدار اور مضبوط مسکن فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوگا، جو مریخی بستیوں کے قیام کے لیے ایک اہم قدم ہو گا۔
تاہم، اس طریقہ کار کے کچھ چیلنجز بھی ہو سکتے ہیں جن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر مریخ پر بسنے والوں کو مسلسل خون عطیہ کرنا پڑے تو اس سے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ اس عمل سے جسمانی وسائل کی کمی ممکن ہے، جس کے باعث مریخی بستیوں میں رہنے والوں کی قوت مدافعت اور مجموعی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ نئی تحقیق نہ صرف مریخ پر زندگی کے امکانات کو بڑھاتی ہے بلکہ یہ ہمیں ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی دعوت دیتی ہے کہ ہم کس طرح قدرتی وسائل کو جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ملا کر نئی دنیاؤں میں زندگی کو بسایا جا سکتا ہے۔