پارلیمانی کمیٹی کی اہم تجویز، قیادت اور قوم یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں امریکہ نے کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کیا، بھارتی وزیر خارجہ کا اعتراف بھارت مقبوضہ کشمیر کی آبادی بدلنے کی کوشش میں مصروف: ترجمان دفتر خارجہ

2024 میں عدلیہ کی کمزوری کا انکشاف: جسٹس منصور کی تشویش ناک پیش گوئی

Justice Mansoor Ali Shah said about weak judiciary system in Pakistan 2024.

عدلیہ پر ایگزیکٹو کا بڑھتا تسلط – ایک خطرناک موڑ

اسلام آباد:

سال 2024 کا اختتام اعلیٰ عدلیہ کے لئے ایک نیا بحران لے کر آیا ہے، جب سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے عدلیہ کے کمزور ترین دور کی نشاندہی کی اور ایگزیکٹو کے بڑھتے ہوئے اثرات سے خبردار کیا۔ یہ سال عدلیہ کے لیے ایک سنگین مرحلہ ثابت ہو رہا ہے، جہاں طاقتور اداروں کی مداخلت اور عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔

عدلیہ کا ایگزیکٹو کے زیر اثر آنا

مارچ 2009 میں ججوں کی بحالی کے بعد سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے اعلیٰ عدلیہ سے فاصلے اختیار کرلیے تھے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ عدلیہ خود پارلیمنٹ اور سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے کے بجائے ایگزیکٹو کے مفادات کا آلہ بن گئی۔ اس صورت حال نے عدلیہ کی آزاد حیثیت کو شدید خطرے میں ڈال دیا، جسے جسٹس منصور علی شاہ نے کھلے طور پر ایک تنبیہہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

پاناما فیصلے اور عدلیہ میں تقسیم

پاناما کیس کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ میں ججز کے درمیان اختلافات شدت اختیار کرگئے، جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس اور پی ٹی آئی کی جانب سے عدلیہ میں چھان بین کے الزامات نے عدلیہ کے داخلی مسائل کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔

سیاسی دباؤ اور عدلیہ کی آزادی پر سوالات

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور الیکشن کمیشن پر دھاندلی کے الزامات کے بعد عدلیہ کے کردار پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ وکلاء اور سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کو سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی دوران، جسٹس منصور علی شاہ کو اگلا چیف جسٹس بننے سے روکنے کے لیے سپریم کورٹ کے اندر کچھ طاقتور حلقوں نے کوششیں کیں، جو عدلیہ کی آزادی کو مزید محدود کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے اثرات کو بڑھا رہے ہیں۔

عدلیہ کے اندر سہولتکاری: ایک سنگین مسئلہ

وکلاء اور عدلیہ کے اندر موجود افراد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں عدلیہ کے اندر سہولتکاری کے بغیر ایگزیکٹو کے اثرات کا بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری میں ایگزیکٹو کی مدد اور چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے فیصلوں نے عدلیہ کے اندر موجود آزادانہ سوچ کو دبایا۔ اس صورتحال میں جسٹس منصور علی شاہ اور دیگر سینئر ججز بے بس محسوس ہو رہے ہیں، جو کہ عدلیہ کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں۔

تاریخ کا سنگین فیصلہ: ذاتی مفادات کے لیے عدلیہ کی کمزوری

آخرکار، تاریخ شاید ان ججوں کو معاف نہ کرے گی جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات اور انا کی تسکین کے لئے اپنے ادارے کو کمزور کیا۔ عدلیہ کی آزادی کی حفاظت کرنا کسی بھی ملک کی جمہوریت کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے، اور یہ وقت اس بات کا غماز ہے کہ اگر عدلیہ میں مداخلت اور ایگزیکٹو کے اثرات کو مزید فروغ دیا گیا تو آئندہ نسلوں کے لئے ایک سنگین سبق ثابت ہوگا۔

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

بلیک فرائیڈے

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

:متعلقہ مضامین