اسلام آباد: پی ٹی آئی کے احتجاج میں ہلاکتیں اور زخمیوں کی تعداد زیرِ بحث
پاکستان میں بانی تحریک انصاف کی رہائی کے لیے اسلام آباد میں کیے گئے مظاہروں اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کے دوران ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد ایک اہم قومی بحث کا موضوع بن چکی ہے۔
پی ٹی آئی کا دعویٰ: کارکنوں کی ہلاکت اور زخمیوں کی تفصیلات
تحریک انصاف کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے دوران 20 سے 280 کارکن جان کی بازی ہار گئے جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے۔ دوسری جانب حکومت کا مؤقف ہے کہ آپریشن کے دوران کوئی گولی نہیں چلائی گئی۔ پولی کلینک اسپتال کے ریکارڈ کے مطابق 26 نومبر کی شب گولی لگنے سے جاں بحق ہونے والے تین افراد میں دو کا تعلق تحریک انصاف سے تھا، جن کا تعلق شانگلہ اور مردان سے بتایا گیا۔
اسپتالوں میں زخمیوں کا علاج اور لاشوں کی حوالگی کے تنازعات
ایک ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے سے روکا گیا، جبکہ اسلام آباد کے دونوں بڑے سرکاری اسپتالوں میں گولیوں سے زخمی متعدد افراد زیر علاج ہیں۔ پمز اسپتال نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے ہلاکتوں اور زخمیوں کی تعداد سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ اسپتال میں 66 سیکیورٹی اہلکار اور 33 شہری لائے گئے، جن میں سے بیشتر معمولی زخمی تھے اور علاج کے بعد فارغ کر دیے گئے، جبکہ دیگر افراد تاحال زیر علاج ہیں۔ پولی کلینک کے ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا کہ اسپتال میں گولیوں کے لگنے سے زخمی ہونے والے 45 سے زائد افراد لائے گئے۔
حکومتی مؤقف اور فائرنگ کے الزامات کی تردید
وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے آپریشن کے دوران فائرنگ کے الزامات کی سختی سے تردید کی اور تحریک انصاف سے اس کے شواہد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین کے ایک گروہ نے جدید اسلحہ استعمال کرتے ہوئے کئی پولیس اہلکاروں کو زخمی کیا۔ اس دوران پولی کلینک کے دو ملازمین نے انکشاف کیا کہ پولیس نے اسپتال میں لاشوں کے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دی۔ یہ معاملہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان الزامات اور جوابی الزامات کے باعث شدت اختیار کر گیا ہے، اور اس کا حل ابھی تک سامنے نہیں آیا۔