غزہ جنگ بندی کی قرارداد کا پس منظر
نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں غزہ میں فوری، مستقل، اور غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد پیش کی گئی۔ اس قرارداد کو 10 منتخب ممالک نے پیش کیا، اور 14 مستقل اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ تاہم، امریکا نے قرارداد کو ویٹو کرتے ہوئے غزہ میں جنگ بندی کے مطالبے کو ایک بار پھر مسترد کر دیا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق، 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی جارحیت کے دوران یہ چوتھی مرتبہ ہے کہ امریکا نے جنگ بندی کی قرارداد ویٹو کی ہے۔
امریکی موقف: یرغمالیوں کی رہائی پر زور
اقوام متحدہ میں امریکی نائب مندوب رابرٹ وُڈ نے اجلاس میں کہا کہ واشنگٹن کسی ایسی جنگ بندی کی حمایت نہیں کرسکتا جو یرغمالیوں کی رہائی کو یقینی نہ بنائے۔ ان کے مطابق، اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع کے خاتمے کے لیے یرغمالیوں کی رہائی ایک اہم شرط ہے۔ اس موقف کو بنیاد بناتے ہوئے امریکا نے غیر مشروط جنگ بندی کی حمایت سے انکار کر دیا۔
اسرائیلی جارحیت اور فلسطینیوں کی شہادتیں
اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری اور حملوں کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ فلسطینی حکام کے مطابق، ان حملوں میں اب تک 44 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 17 ہزار 400 سے زیادہ بچے شامل ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ غزہ میں ہر 30 منٹ میں ایک بچہ اسرائیلی حملوں کا نشانہ بن رہا ہے، جو انسانی بحران کی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
امریکا کی قرارداد ویٹو کرنے کی تاریخ
یہ پہلا موقع نہیں کہ امریکا نے غزہ جنگ بندی کی قرارداد کو مسترد کیا ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے، امریکا پہلے ہی تین مرتبہ ایسی قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے جو اسرائیلی مظالم کو روکنے اور امن قائم کرنے کا مطالبہ کرتی تھیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے اس حالیہ اقدام نے عالمی سطح پر شدید تنقید کو جنم دیا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب غزہ کے عوام انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
نتیجہ
غزہ میں جاری اسرائیلی مظالم اور امریکا کی جانب سے مسلسل جنگ بندی کی مخالفت نے ایک پیچیدہ اور حساس صورت حال کو جنم دیا ہے۔ عالمی برادری کی جانب سے امن قائم کرنے کی کوششوں کے باوجود، اسرائیلی حملے اور فلسطینیوں کی شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ امریکی موقف یرغمالیوں کی رہائی پر مرکوز ہے، لیکن یہ تنازع کا کوئی فوری حل پیش کرنے میں ناکام دکھائی دیتا ہے۔