مستقل حکومتی استحکام اور قانون سازی کے معاملات پر موقف اسلام آباد:
وزیر دفاع خواجہ آصف نے واضح کیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بات چیت کا راستہ کھلا ہے۔ اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’خبر‘ میں گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ وزیر اعظم اور اسمبلی کی مدت پانچ سال کی ہوتی ہے اور قانون سازی کسی فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ غیر یقینی حالات سے نکلنے کے لیے کی گئی ہے۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت اور آئینی ترامیم پر وضاحت
خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی 77 سالہ تاریخ میں کئی بار مدت ملازمت کے حوالے سے معاملات سامنے آتے رہے ہیں، اور میں نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کے لیے ووٹ دیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ آئینی ترمیم کے اصل مسودے میں ججز کی عمر بڑھانے کی تجویز تھی، تاہم بعد میں اسے ہٹا دیا گیا۔ سروسز چیفس کو ایکسٹینشن نہیں بلکہ مدت ملازمت میں اضافہ دیا گیا ہے، جس سے پہلے مشاورت بھی کی گئی تھی۔
اپوزیشن کے اعتراضات اور قانون سازی کا عمل
خواجہ آصف نے مزید کہا کہ قانون سازی کے عمل کے دوران اپوزیشن کو بھی بولنے کا موقع دیا گیا لیکن انہوں نے شور شرابا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنی حکومتی حکمت عملی پر عملدرآمد کریں گے لیکن جو اللہ چاہے گا وہی ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے، ترسیلات زر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرمایہ کاری بھی آ رہی ہے، جس سے ملکی اقتصادی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی سیاسی حکمت عملی اور قیادت کی تبدیلی
خواجہ آصف نے بانی پی ٹی آئی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ماضی میں کئی بار پوزیشنز تبدیل کیں، جس سے ان کی حقیقت عوام کے سامنے آ گئی۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے ان سے کہا کہ اگر ابھی الیکشن ہو تو پی ٹی آئی کو 17 سیٹیں بھی مشکل سے ملیں گی۔ خواجہ آصف نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کی سیاست میں تبدیلیاں آئیں ہیں، علی امین گنڈاپور سمیت دیگر رہنما بانی کے آشرباد کے بغیر فیصلے نہیں کر سکتے- خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے بارے میں بھی پی ٹی آئی کے لوگوں نے اشارے دیے کہ یہ ایک ڈیل کے نتیجے میں ممکن ہوئی ہے۔