اسلام آباد
وفاقی آئینی عدالت کے قیام سے متعلق آئینی ترامیم پر حکومت، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے مختلف نکات سامنے آگئے ہیں۔ حکومت نے ایک آئینی ترمیم کا ڈھانچہ تیار کیا ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اسے شیئر بھی کر دیا ہے، جس میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فارمولہ بھی شامل ہے۔
حکومت کا آئینی مسودہ
حکومت کی جانب سے پیش کردہ مسودے کے مطابق، وفاقی آئینی عدالت کا قیام چیف جسٹس سمیت سات ارکان پر مشتمل ہوگا۔ اس عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز اس کے رکن ہوں گے۔ مزید برآں، وزیر قانون، اٹارنی جنرل، پاکستان بار کونسل کا نمائندہ، اور دونوں ایوانوں سے دو، دو اراکین حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے شامل کیے جائیں گے۔ صوبائی عدالتوں کے لیے بھی چیف جسٹس، صوبائی وزیر قانون، اور بار کونسل کے نمائندے شامل ہوں گے۔ جج کی نامزدگی وزیراعظم صدر کو مشاورت کے بعد بھجوائیں گے۔
جمیعت علماء اسلام (ف) کا آئینی مسودہ
جے یو آئی (ف) نے 24 آئینی ترامیم کی تجاویز پیش کی ہیں جن میں آئینی بینچ کی تشکیل، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں آئینی بینچز بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔ جے یو آئی (ف) نے آرٹیکل 175 اے، 19ویں ترمیم کا خاتمہ، اور 18ویں ترمیم کی بحالی کی تجویز دی ہے۔ مسودے میں اسلامی مانیٹری سسٹم کی تجویز بھی شامل ہے، جس کے تحت یکم جنوری 2028 سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔
پیپلز پارٹی کا آئینی مسودہ
پیپلز پارٹی نے آرٹیکل 184 میں ترمیم کی تجویز دی ہے، جس کے تحت چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا اختیار ختم کر دیا جائے گا اور یہ اختیار پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس منتقل ہو جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی بھی تجویز دی، جو پانچ ججز پر مشتمل ہوگی، جبکہ ہر صوبے سے باری باری چیف جسٹس مقرر ہوں گے۔
آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل کا عمل
حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی اور عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، تاہم صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل وفاقی آئینی عدالت میں کی جا سکے گی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے لیے آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تین سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے گی۔