بجلی کے نرخوں میں کمی: حکومتی اعلانات اور عملی مشکلات
حکومت کی جانب سے بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کے وعدے کے باوجود، یہ اقدام بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔ پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کے ساتھ 7 ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت مذاکرات کر رہا ہے، جس میں پہلے دو سالہ اقتصادی جائزے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔
گزشتہ دنوں میڈیا میں یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ وزیرِاعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے۔ تاہم، یومِ پاکستان کے موقع پر ان کے خطاب میں ایسا کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے، انہوں نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں بجلی کے نرخوں، توانائی کے شعبے میں اصلاحات، اور عوامی ریلیف سے متعلق معاملات کا جائزہ لیا گیا۔
آئی ایم ایف کی شرائط اور حکومتی حکمتِ عملی
حکومت نے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک جامع پیکیج تیار کرنے کا اعلان کیا تھا، جس کے تحت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی سے ہونے والے فوائد کو صارفین تک پہنچانے کی حکمت عملی بنائی گئی۔ تاہم، آئی ایم ایف کے معیارات کے تحت اس پیکیج کا مکمل جائزہ لیا جانا تھا تاکہ اس کے مالیاتی اثرات کا اندازہ لگایا جا سکے۔
حکومتی حکام کے مطابق، 4 سے 14 مارچ کے دوران آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کرکے 2 روپے فی یونٹ کمی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کرکے زیادہ سے زیادہ 70 روپے تک لے جایا گیا، تاکہ بجلی کے نرخوں میں مزید 2 سے ڈھائی روپے فی یونٹ کمی کی جاسکے۔
حکومتی افسران کا مؤقف ہے کہ چونکہ یہ اقدامات ریونیو نیوٹرل ہیں، اس لیے آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ تاہم، آئی ایم ایف مالیاتی استحکام کو یقینی بنانے کے لیے وسیع تر تصویر دیکھنے پر زور دیتا ہے، جس کی وجہ سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوگیا ہے۔
نیپرا کی رکاوٹیں اور سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بھی بجلی کے نرخوں میں کمی کے حوالے سے بعض چیلنجز پیدا کیے ہیں۔ نیپرا کو مختلف ڈسکوز کی جانب سے سالانہ بیس ٹیرف پر نظرثانی کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں، جبکہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے بعد صرف 6 سے 7 بجلی پیدا کرنے والے ادارے نیپرا کے سامنے نظرثانی شدہ ٹیرف کے لیے پیش ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ، حکومت نے سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں تبدیلی کی تجویز دی، جسے کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے منظور کیا تھا۔ تاہم، سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کی سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا۔ سولر نیٹ میٹرنگ کے تحت بجلی پیدا کرنے والے صارفین کو حکومت خریداری کی مد میں ادائیگی کرتی ہے، مگر نئی پالیسی کے مطابق بائی بیک ریٹ میں دو تہائی کمی کی گئی ہے، جس سے صارفین کو کم فائدہ ہوگا۔
وزیرِاعظم نے اس معاملے پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کی سولرائزیشن پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، اور توانائی کے متبادل ذرائع کا فروغ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ تاہم، وزیرِ توانائی کا مؤقف ہے کہ نیٹ میٹرنگ کے بجائے نجی سرمایہ کاروں سے یوٹیلٹی اسکیل پر شمسی توانائی خریدی جائے، تاکہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری اور مستقبل کی حکمت عملی
وزیرِاعظم نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکوز) کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے اور پیداواری کمپنیوں کی نجکاری سے متعلق قانونی اور انتظامی معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
حکومت بجلی کے نرخوں میں 5 روپے یا اس سے زائد فی یونٹ کمی کے لیے ایک موثر پالیسی تیار کر رہی ہے۔ تاہم، اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام قانونی، مالیاتی، اور ریگولیٹری پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے۔
وزیرِاعظم نے پاور ڈویژن، واٹر ریسورسز ڈویژن، اور پیٹرولیم ڈویژن کو ہدایت دی ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں جامع حکمت عملی وضع کرنے کے لیے مل کر کام کریں، تاکہ عوام کو جلد از جلد ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
نتیجہ
بجلی کے نرخوں میں کمی کا حکومتی وعدہ ابھی تک مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہن سکا، جس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط، نیپرا کی ریگولیٹری پیچیدگیاں، اور توانائی کے شعبے میں پائی جانے والی انتظامی رکاوٹیں ہیں۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ وہ صارفین کے لیے بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے سنجیدہ ہے، مگر اس کے لیے بین الاقوامی اور مقامی سطح پر اقتصادی عوامل کو مدنظر رکھنا ضروری ہوگا۔ آنے والے دنوں میں یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا حکومت واقعی عوام کے لیے کوئی مؤثر ریلیف پیکج متعارف کرا پاتی ہے یا نہیں۔
مزید پڑھیں
کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی اور مولانا فضل الرحمان کی ملاقات