عمران خان نے اوپن لیٹر لکھا جس کا جواب کبھی نہیں آتا: فلک ناز نثار جٹ: شیر افضل نے ہم سے منسوب باتیں غلط پیش کیں۔ پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی پر اراکین اسمبلی برطرف ہوں گے، سلمان اکرم راجہ آئی ایم ایف کی شرائط حکومت کے لیے مشکلات کا سبب بن رہی ہیں، رانا ثنااللہ

بانی پی ٹی آئی کے خطوط مفاہمت کی راہ میں نئی مشکلات

PTI founder Imran Khan letter to army chief asim munir is main hindrance to pakistani politics

عمران خان کے خطوط

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو بھیجے گئے خطوط نے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خطوط نہ صرف آرمی چیف کو مزید ناراض کر سکتے ہیں، بلکہ ممکنہ مصالحت کی راہ کو بھی مزید پیچیدہ بنا دیں گے۔

دورِ حاضر میں ایک پرانی روایت کا احیاء

ایکسپریس ٹربیون کی رپورٹ کے مطابق، اس خط کا معاملہ خاص طور پر ڈیجیٹل دور میں اہمیت اختیار کرتا ہے۔ عمران خان نے پچھلے ہفتے مسلسل آرمی چیف کو خط لکھ کر ایک روایتی سیاسی طریقہ کار کو دوبارہ زندہ کیا۔ ان خطوط میں انہوں نے مبینہ انتخابی دھاندلی، کرپٹ سیاستدانوں کی حکومت میں واپسی، اور ادارے کے خلاف بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی پر تشویش کا اظہار کیا۔ عمران خان نے اس کے ساتھ ہی اپنی جیل میں موجودگی کے بارے میں سخت حالات بھی بیان کیے۔

آرمی چیف کا ردعمل: ایک واضح پیغام

آرمی چیف کی جانب سے ان خطوط پر ردعمل انتہائی متعین اور اہانت آمیز تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ تو انہوں نے کوئی خط وصول کیا ہے اور نہ ہی وہ ان خطوط کو پڑھیں گے۔ اس کے بجائے، یہ خطوط وزیراعظم کو بھیجے جائیں گے۔ وزیراعظم کے سیاسی مشیر رانا ثنا اللہ نے الزام عائد کیا کہ عمران خان کے خطوط فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور رائے عامہ کو متاثر کرنے کی ایک کوشش ہیں۔

سیاسی بیانیہ یا اسٹریٹجک چال؟

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے خطوط دراصل ان کی جیل میں بیٹھ کر اپنے سیاسی بیانیہ کو زندہ رکھنے کی ایک چال ہیں۔ انہوں نے براہ راست آرمی چیف کو مخاطب کر کے اپنی سیاسی حیثیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم، ان خطوط پر آرمی چیف کا ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ وہ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ یہ خطوط آرم چیف کو مزید ناراض کر سکتے ہیں۔

مصالحت کی راہ میں رکاوٹ یا امید کی کرن؟

پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ یہ خطوط کسی سیاسی کھیل کا حصہ ہیں، جس کا مقصد صرف توجہ حاصل کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خطوط آرمی چیف کو مزید ناراض کرنے کے علاوہ، کسی بھی قسم کی مصالحت کی راہ میں اضافی رکاوٹ ڈالیں گے۔ اس کے جواب میں آرمی چیف کا “نو کمنٹس” کا بیان کافی حد تک واضح تھا۔

نمل یونیورسٹی کے پروفیسر طاہر نعیم ملک نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطوط عمران خان کے اس موقف کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ صرف طاقتور فریق کے ساتھ مذاکرات کے خواہش مند ہیں۔ آرمی چیف کے نام کھلا خط لکھ کر، عمران خان نے ایک طرف طاقتور سٹیک ہولڈر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور دوسری طرف عوام کے سامنے اپنا کیس پیش کیا ہے۔ تاہم، اس کوشش میں انہوں نے مزید مسائل کھڑے کر لیے ہیں۔

ایک بڑھتی ہوئی مایوسی کا اظہار؟

کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے یہ خطوط اس بات کا اشارہ ہیں کہ ان کی مایوسی بڑھ رہی ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی ایک آخری کوشش کر رہے ہیں۔ یہ خطوط ممکنہ طور پر ان کے لئے ایک سیاسی سٹریٹجی ہیں، جو مستقبل میں ان کے فیصلوں کی سمت کا تعین کریں گے۔

نتیجہ

عمران خان کے خطوط نے جہاں ایک طرف ان کے سیاسی موقف کو اجاگر کیا ہے، وہیں دوسری طرف اس سے آرمی چیف کے ساتھ ان کی تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا ہونے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ اس خط و کتابت سے پیدا ہونے والی صورتحال، سیاسی منظرنامے میں نیا موڑ لا سکتی ہے، لیکن یہ بھی واضح ہے کہ یہ اقدام مفاہمت کی راہ میں مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔

مزید پڑھیں
علی محمد خان ملکی خودمختاری پر سمجھوتہ ناممکن

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

بلیک فرائیڈے

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

:متعلقہ مضامین