کرپٹ اشرافیہ کے خلاف سخت مؤقف
عوام پاکستان پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے ملک میں بدعنوانی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے مطابق، کرپٹ اشرافیہ کی موجودگی ملک کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہے۔ انہوں نے اس امر کو تسلیم کیا کہ موجودہ حالات میں پورا ملک بے چینی اور مسائل کا شکار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں پیٹرول، ڈیزل اور ایل پی جی کی اسمگلنگ بڑھتی جا رہی ہے، جبکہ تیل کی ترسیل کے لیے موجودہ پائپ لائنز کا مؤثر استعمال نہ ہونے کے سبب ٹینکر مافیا کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔
متنازع انتخابات اور عوام کی ناپسندیدگی
شاہد خاقان عباسی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ انتخابات شفافیت سے عاری تھے اور ان کے نتائج پر عوام کا اعتماد نہیں ہے۔ ان کے مطابق، ملک میں ایک ایسی حکومت مسلط کر دی گئی ہے جو عوام کی حقیقی نمائندہ نہیں ہے۔ عوام کی رائے کو نظر انداز کرنے سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہو رہی ہے بلکہ ملک میں سیاسی استحکام بھی متاثر ہو رہا ہے۔
معاشی بحران اور حکومتی ناکامیاں
سابق وزیرِاعظم نے ملکی معیشت کے سکڑتے ہوئے دائرے پر تشویش کا اظہار کیا اور بتایا کہ حکومت کو اپنے اضافی اخراجات پورے کرنے کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ملک میں ٹیکس کا سب سے بڑا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ہے، جو تقریباً 38.5 فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک میں قانون کی حکمرانی نافذ کر دی جائے تو معاشی مسائل کا سدباب ممکن ہو سکتا ہے۔
سیاسی استحکام اور عوام کی شراکت داری
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ سیاسی رہنماؤں کا اصل احتساب عوامی ووٹ سے ہوتا ہے اور جو حکومتیں عوامی رائے کے بغیر بنائی جاتی ہیں، وہ عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ انہوں نے حکومت اور اسمبلیوں کو غیر نمائندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام سے دور رہنے والی حکومتیں اپنی تنخواہیں تو بڑھا لیتی ہیں لیکن عوامی فلاح کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کرتیں۔
ملک کے لیے اجتماعی فیصلے ضروری
عباسی نے ملکی مسائل کے حل کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھنے کا مشورہ دیا اور خبردار کیا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو عوام سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو جائے گی، جس کے نتیجے میں خطرناک صورت حال جنم لے سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے اور اس وقت جو بھی حکومتی جماعتیں ہیں، وہ تمام کی تمام ناکام ہو چکی ہیں۔
مسلم لیگ ن سے علیحدگی اور جمہوری اصولوں کی پاسداری
انہوں نے اپنی سابقہ جماعت مسلم لیگ (ن) کی پالیسیوں پر بھی روشنی ڈالی اور بتایا کہ انہوں نے ‘ووٹ کو عزت دو’ کے اصول کو اپنایا تھا، مگر بدقسمتی سے پارٹی نے اقتدار کو اہمیت دینا شروع کر دیا۔ اس بنیادی نظریاتی اختلاف کی وجہ سے ان کے لیے پارٹی میں مزید رہنا ممکن نہ رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو بھی اپنی رائے سے آگاہ کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ اب الیکشن میں حصہ نہیں لینا چاہتے۔
آئی ایم ایف اور ملکی معیشت پر اثرات
عباسی نے حکومت کی معاشی پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی وجہ سے عالمی ادارے ملکی سیاست، معیشت، قانون اور عدلیہ پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق، دنیا بھر میں پاکستان کے اقدامات کو بغور دیکھا جا رہا ہے اور رات کی تاریکی میں کی گئی آئینی ترامیم سے جمہوری اقدار کو نقصان پہنچا ہے۔
اپوزیشن کا مؤثر کردار اور تعمیری سوچ
شاہد خاقان عباسی نے اپوزیشن کے کردار پر بھی تبصرہ کیا اور کہا کہ اپوزیشن کو ملک کے مسائل کے حل کا حصہ بننا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بانی پی ٹی آئی عمران خان آرمی چیف کے بجائے براہِ راست عوام کو خط لکھتے اور انہیں درپیش مسائل کا حل پیش کرتے تو یہ زیادہ مؤثر قدم ہوتا۔ ان کے مطابق، سیاستدانوں کو ذاتی اختلافات سے بالاتر ہو کر ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح کے لیے مشترکہ کوششیں کرنی چاہئیں۔
مزید پڑھیں
حلف اٹھانے کی تاریخ ہی جج کی سنیارٹی کا معیار ہوگی، بیرسٹر علی ظفر