عدالتی سنیارٹی پر اختلافات اور حکومت کی ترجیحات
پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر اور معروف قانونی ماہر بیرسٹر علی ظفر نے عدلیہ میں سنیارٹی کے مسئلے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے نے ایک نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے، جبکہ عدالتی تبادلوں میں کسی قسم کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق، یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی تعیناتی میں اپنی مرضی شامل کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی کا مسئلہ پہلے ہی حل ہو جانا چاہیے تھا تاکہ مستقبل میں کسی قسم کی پیچیدگی پیدا نہ ہو۔ نئی ہائیکورٹ میں حلف اٹھانے کے بعد جج کی سنیارٹی اس دن سے شمار کی جائے گی جب وہ نیا حلف لیتا ہے۔
آئینی تقاضے اور ججوں کی تعیناتی
بیرسٹر علی ظفر نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’نیوز انسائٹ ود عامر ضیا‘ میں گفتگو کے دوران کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق، جب کسی جج کا تبادلہ ایک ہائیکورٹ سے دوسری ہائیکورٹ میں کیا جاتا ہے تو پہلے اس کی رضا مندی لی جاتی ہے، اور تبادلہ ہونے کے بعد جج کو متعلقہ ہائیکورٹ میں نیا حلف لینا ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ جب کوئی جج کسی نئی ہائیکورٹ میں اپنا عہدہ سنبھالتا ہے تو اس کی سنیارٹی کا حساب اسی دن سے شروع کیا جاتا ہے جب وہ نیا حلف لیتا ہے۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی عدالتی فیصلہ موجود نہیں ہے، مگر یہ ایک رائج طریقہ کار ہے جو عرصہ دراز سے عمل میں لایا جا رہا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیدا ہونے والا تنازع
بیرسٹر علی ظفر نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس عامر فاروق کی سپریم کورٹ میں ترقی کے بعد، دوسری ہائیکورٹس سے آئے ہوئے ججز اب سنیارٹی میں آگے بڑھ گئے ہیں اور چیف جسٹس بننے کے اہل ہیں۔ یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جس نے اس تنازع کو جنم دیا ہے۔ ان کے مطابق، عدلیہ میں تبادلوں سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں ہے، مگر جس طریقے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں سنیارٹی کا معاملہ سامنے آیا ہے، اس نے وکلا برادری کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس معاملے میں وہ وکلا کی حمایت کریں گے تاکہ عدلیہ میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
آئی ایم ایف اور گورننس کے معاملات
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف نے واضح کیا ہے کہ وہ پاکستان میں گڈ گورننس اور انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کا مشن نہ صرف حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھے گا بلکہ چیف جسٹس پاکستان اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبران سے بھی ملاقات کرے گا، جس کے بعد اپنی رپورٹ شائع کرے گا۔ ان کے مطابق، اس رپورٹ کی روشنی میں اگلے سال کے لیے پاکستان کے لیے نئی شرائط عائد کی جا سکتی ہیں۔
ملکی معیشت اور آئینی معاملات
مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نہ صرف گورننس اور کرپشن بلکہ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی جیسے معاملات پر بھی غور کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں اس وقت آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے، اور اس وجہ سے ہی ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی ہوئی آمدنی کے باعث عام شہری شدید مشکلات کا شکار ہیں، جبکہ حکمران طبقہ عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف ہے۔
نتیجہ
عدلیہ میں سنیارٹی کے مسئلے پر تنازع نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے، اور حکومت کی عدلیہ میں ممکنہ مداخلت کے خدشات نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق، عدلیہ میں تعیناتیاں غیر جانبدار ہونی چاہئیں اور سنیارٹی جیسے معاملات کو آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے حل کیا جانا چاہیے تاکہ عدلیہ کی ساکھ برقرار رہے۔ دوسری طرف، ملکی معیشت کی غیر مستحکم صورتحال اور آئی ایم ایف کی شرائط سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو نہ صرف عدالتی بلکہ معاشی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے۔