ریاست کی کمزوری اور مذاکرات کی مجبوری
تجزیہ کار محسن بیگ کے مطابق موجودہ حالات میں ریاست کمزور نظر آ رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ریاست کسی سے مذاکرات کر رہی ہے، تو یہ کمزوری کی علامت ہے، کیونکہ مضبوط ریاستیں کسی فرد یا گروہ کے دباؤ میں آ کر بات چیت نہیں کرتیں۔ ان کے مطابق، ایک فرد نے ریاستی معاملات کو یرغمال بنایا ہوا ہے، اور حکومت اور ادارے اس صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں۔ اس کمزوری کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف عوام بلکہ حکومتی ادارے بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔
احتجاج کی کال اور عمران خان کی حکمت عملی
پروگرام “اسٹیٹ کرافٹ” میں تجزیہ کار حسن ایوب نے بتایا کہ عمران خان اپنی احتجاجی حکمت عملی سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ ان کو یہ آگاہ کیا گیا کہ جس انقلاب کی وہ توقع کر رہے تھے، وہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔ پنجاب اور سندھ جیسے بڑے صوبوں میں عوامی شرکت نہ ہونے کی وجہ سے عمران خان مایوس تو ہوئے ہیں، لیکن احتجاجی کال کو واپس لینے کے لیے رضامند نہیں ہوئے۔ اس کی وجہ شاید ان کا اپنی حکمت عملی پر غیر متزلزل یقین اور حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کی کوشش ہے۔
سیاسی حکمت عملی کی کمی اور تھرڈ پارٹی کردار
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے اس بات کی نشاندہی کی کہ بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کی ملاقاتیں کسی تیسرے فریق کی کوشش کا نتیجہ ہیں۔ یہ تیسرا فریق وہی ہے جس کے ساتھ عمران خان بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم، موجودہ حکومت کے سیاسی خلا کو انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ رضا رومی کا کہنا ہے کہ ماضی میں ریاستی معاملات میں نرمی برتی جاتی رہی، لیکن آج کی حکومت کے پاس نہ سیاسی حکمت عملی ہے اور نہ مسائل سے نمٹنے کا کوئی مؤثر منصوبہ۔ ریاست کے غیر سیاسی اور غیر منتخب اداروں پر انحصار اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہا ہے، کیونکہ منتخب حکومت اپنی ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
نتیجہ
ریاستی کمزوری، حکومت کی غیر مؤثر حکمت عملی، اور تیسرے فریق کی مداخلت موجودہ بحران کو مزید بڑھا رہی ہے۔ عوامی حمایت کی کمی کے باوجود عمران خان اپنی احتجاجی پالیسی پر ڈٹے ہوئے ہیں، جس سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں۔ موجودہ حالات ایک مضبوط سیاسی حکمت عملی اور قیادت کی فوری ضرورت کو اجاگر کرتے ہیں۔