امریکی انتخابات اور مسلم ووٹرز کی اہمیت
جیسے جیسے امریکی انتخابات قریب آ رہے ہیں، ایک اہم سوال سر فہرست ہے: امریکہ میں رہائش پذیر مسلمان کس کو ووٹ دیں گے؟ اگرچہ مسلمانوں کی مجموعی آبادی ملک کی ایک فیصد ہے، لیکن مشی گن اور پنسلوانیا جیسی ریاستوں میں ان کا ووٹ بہت اہمیت رکھتا ہے، خاص طور پر جب مقابلہ سخت ہو۔ اس سال، بہت سے مسلمان ووٹرز کے ذہنوں میں ایک خاص فکر ہے: غزہ میں جاری جنگ۔
مسلم ووٹرز کی مایوسی
جو بائیڈن اور کاملا ہیرس کی ڈیموکریٹک حکومت کے غزہ میں کردار نے کئی مسلمانوں کو مایوس کیا ہے، کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ ڈیموکریٹک انتظامیہ اس مسئلے پر ان کی آواز کو نظر انداز کر رہی ہے۔ دوسری طرف، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مسلم بین اور 9/11 کے بعد ری پبلکن پارٹی کا اسلاموفوبک رویہ بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں ہے۔ اس صورتحال میں سوال یہ ہے کہ کیا وہ دو تعصبی جماعتوں میں سے کم تعصبی جماعت کو ووٹ دینے کا انتخاب کریں گے یا انتخابی عمل سے ہی دور رہیں گے؟
ووٹنگ کے خدشات اور تبدیلی کی ضرورت
حال ہی میں کی گئی ایک پولنگ کے مطابق، تقریباً 29.4 فیصد مسلمان کاملا ہیرس کو ووٹ دینے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کے لیے ایک تشویشناک بات ہے، کیونکہ 2016 اور 2020 میں 65 سے 80 فیصد مسلمان ہیلری کلنٹن اور جو بائیڈن کو ووٹ دیتے رہے تھے۔ جو مسلمان کاملا ہیرس کو مسترد کرتے ہیں، وہ ممکنہ طور پر ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی تیسرے امیدوار کو ووٹ دیں گے، یا پھر ووٹنگ کے عمل سے گریز کر سکتے ہیں۔
یہ صورتحال امریکی مسلمانوں کی ووٹنگ کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے، جو پاکستان کے بائیں بازو کے لبرل حلقوں کی طرح ہے، جو جمہوریت مخالف قوتوں کے خلاف اپنی ناکامیوں پر تنقید کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب ریاستی ادارے مخصوص قوتوں کے کنٹرول میں ہوں تو جمہوری سوچ رکھنے والے افراد نظام میں شامل ہونے سے کتراتے ہیں۔
بحث و مباحثے کی اہمیت
امریکی مسلمانوں کے نظریات میں تنوع ہے، جیسا کہ شادی حامد اور ہارون مغل کے درمیان ہونے والے مباحثے میں دیکھا گیا۔ شادی حامد کا کہنا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی حمایت پر ڈیموکریٹس کو سزا دینی چاہیے، لیکن وہ کاملا ہیرس کو ووٹ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ ٹرمپ کی فتح سے امریکی جمہوریت کو نقصان نہ پہنچے۔ دوسری جانب، ہارون مغل ووٹ نہ دینے کا فیصلہ کر چکے ہیں، کیونکہ ان کا ضمیر انہیں ایسے امیدوار کو ووٹ دینے کی اجازت نہیں دیتا جو جنگی جرائم میں سہولت کار رہا ہو۔
دونوں افراد اپنی مختلف آراء کے باوجود تحمل کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں، جس کا مقصد فلسطینیوں کے حقوق اور امریکی جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی، اگر لبرل حلقے آپس میں متفق ہو کر کام کریں تو وہ نظام کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔
مقامی مسائل پر توجہ
ہارون مغل کی رائے ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے، لیکن مقامی اور ریاستی انتخابات میں امیدواروں کی حمایت کریں گے۔ وہ پارٹی رہنماؤں کو مسترد کر رہے ہیں، لیکن جمہوری عمل کو نہیں۔ پاکستان میں بھی، عوامی حکومتوں کو مستحکم کرنا، اشرافیہ کے قبضے کو چیلنج کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔
طویل المدتی حکمت عملی
امریکی مسلمان اپنے ملک کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی پر اثرانداز ہونے میں ناکام رہے ہیں۔ حامد نے نشاندہی کی کہ انہوں نے قضیہ فلسطین کو مستحکم کرنے کے لیے ضروری وجوہات فراہم نہیں کیں، جس کی وجہ سے سیاستدان اسرائیل کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے۔ امریکی کانگریس میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہو رہا ہے، جس کی شروعات 2006 میں کیتھ ایلیسن سے ہوئی، جبکہ 2016 میں الہان عمر اور راشدہ طلیب بھی منتخب ہوئیں۔
پاکستان میں، ہم ان لوگوں کی حمایت کرتے ہیں جو جمہوریت کے محافظ ہیں۔ ہمیں تنظیم پر مبنی سیاست کے بجائے جذبات کے بجائے حقیقی تبدیلی کی طرف قدم بڑھانا ہوگا۔ حقیقی تبدیلی نچلی سطح سے ہی آتی ہے، اور ہمیں عوامی مسائل پر توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم جمہوریت کو مزید مستحکم بنا سکیں۔ چاہے امریکی انتخابات میں کس کی کامیابی ہو، امریکی مسلمانوں کو نظام میں اپنی سیاسی شرکت سے ہرگز دستبردار نہیں ہونا چاہیے۔