اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کو توہینِ عدالت کے مقدمے میں آج سہ پہر تین بجے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت آیا جب بانیٔ پی ٹی آئی کی جیل ملاقات نہ کرانے پر کیس کی سماعت کی گئی۔
عدالتی حکم کی خلاف ورزی
عدالت نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کہا کہ بانیٔ پی ٹی آئی کو اپنے وکلاء کے ساتھ ملاقات کرنے کی اجازت دی جائے، اور سوال کیا کہ کیا حکومت انصاف کی فراہمی کو روک سکتی ہے؟
سیکیورٹی کے خدشات
اسٹیٹ کونسل نے عدالت کو بتایا کہ ملاقاتیں اس لیے نہیں کرائی گئیں کیونکہ عدالت کی سماعتیں نہیں ہو رہی تھیں۔ تاہم، جسٹس اعجاز نے اس بات پر زور دیا کہ سیکیورٹی کے خدشات کی وجہ سے ملاقات کی پابندی توہین عدالت ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ کس طرح کی سیکیورٹی کے خطرات تھے کہ وکلاء کو بھی ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔
عدالت کی ہدایت اور حکومت کی ذمہ داری
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانیٔ پی ٹی آئی کے وکلاء کی آن لائن میٹنگ کرانے کا حکم دیا ہے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے اس فیصلے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ توہینِ عدالت کے معاملے میں عدالت اس طرح کا حکم نہیں دے سکتی، مگر عدالت نے واضح کیا کہ وہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کی توثیق نہیں کرتی اور وزارت داخلہ کو اس معاملے میں وضاحت دینے کا حکم دیا ہے۔