جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کی جماعت اور پی ٹی آئی ارکان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسے ہتھکنڈے جاری رہے تو بات چیت کا عمل روکنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
حکومتی دباؤ اور دھمکیوں کا سامنا
مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے اور پی ٹی آئی ارکان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جبکہ بی این پی ارکان کو بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ رویہ برقرار رہا تو بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں بچے گی اور وہ مذاکرات سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوں گے۔
آئینی ترمیم پر اپوزیشن کا موقف
مولانا فضل الرحمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کو آئینی ترمیم سے الگ رکھنا ناقابل قبول ہے۔ آئینی ترامیم کو متفقہ ہونا چاہیے، اور اپوزیشن کو آن بورڈ لیا جانا چاہیے تاکہ کوئی سیاسی کشیدگی پیدا نہ ہو۔
خصوصی کمیٹی میں نمائندگی کا مطالبہ
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کا رویہ مثبت رہا ہے اور جو چیزیں قابل قبول تھیں، انہیں تسلیم کر لیا گیا ہے۔ مولانا نے حکومت اور پیپلز پارٹی کو بھی تجویز دی کہ خصوصی کمیٹی میں نمائندگی میں اضافہ کیا جائے، اور بارز کے نمائندوں کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے تاکہ فیصلے شفاف اور قابل قبول ہوں۔
مفاہمت یا ٹکراؤ: حکومت کو سنجیدہ رویہ اپنانے کا مشورہ
مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مفاہمت کا رویہ اپنانے کے باوجود، حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ ایک طرف مذاکرات کا عمل جاری ہے، جبکہ دوسری طرف ارکان کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی رویہ بدمعاشی والا ہوا تو وہ بھی اپنا ردعمل اسی طرح کا دیں گے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ صبح تک صورتحال کو بہتر کیا جائے ورنہ وہ لائحہ عمل تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے۔