مولانا فضل الرحمان کا احتجاج اور حکومت کی سنجیدگی
گروپ ایڈیٹر ایکسپریس ایاز خان نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کو اگر احتجاج کرنا ہے تو انھیں اس کا حق دیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس احتجاج کو سنجیدگی سے لے گی، اور جیسے ہی احتجاج شروع ہوگا، اعلیٰ حکومتی شخصیات کی سرگرمیاں بھی بڑھ جائیں گی۔ ایاز خان نے کہا کہ آئین 1973 کے تناظر میں مولانا آخرکار مان جائیں گے۔
حکومت کی پوزیشن اور مشکلات کا سامنا
تجزیہ کار فیصل حسین کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ اگر کوئی مشکلات پیش آئیں تو اُن کا سامنا حکومت نہیں بلکہ کوئی اور فریق کرے گا۔ انہوں نے کل کے ضمنی انتخابات کے نتائج کے تناظر میں کہا کہ قوم کی صف بندی میں خود حکومت نے دراڑ پیدا کی ہے، جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مولانا کی سیاسی حکمت عملی
تجزیہ کار نوید حسین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ اپنی سیاسی حکمت عملی کے مطابق آگے بڑھتے ہیں۔ وہ گیو اینڈ ٹیک کی پالیسی پر کام کرتے ہیں اور حکومت سے سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے احتجاج یا اس کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ ان کے مطابق، اس بار بھی مولانا کی احتجاجی کال کو زیادہ سنجیدہ لینے کی ضرورت نہیں۔
پی ٹی آئی کی داخلی سیاست
تجزیہ کار عامر الیاس رانا نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت داخلی اختلافات کا شکار ہے۔ مثال کے طور پر، عالیہ حمزہ نے پنجاب میں پارٹی سرگرمیوں کا آغاز کیا لیکن خود پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے اس پر اختلاف ظاہر کر دیا اور کمیٹی کی سربراہی خود سنبھال لی۔
مزید احتجاج یا مذاکرات؟
تجزیہ کار محمد الیاس نے کہا کہ پہلے بات چیت کی بات ہو رہی تھی، لیکن اب احتجاج کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے خود واضح کیا ہے کہ احتجاج ہوگا۔ ان کے مطابق، حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ابھی تک کوئی وفد یا رابطہ سامنے نہیں آیا۔
نتیجہ
تجزیہ کاروں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھے گا۔ مولانا فضل الرحمان اور پی ٹی آئی دونوں کی طرف سے احتجاج کی تیاریاں جاری ہیں، جبکہ حکومت اس سب کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتی ہے، یہ وقت بتائے گا۔
مزید پڑھیں
عوام نکلے تو پورا ملک نکلے گا: نیاز اللہ نیاری