جے یو آئی (ف) کے ساتھ مذاکرات اور سیاسی منظرنامہ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عید کے بعد اپوزیشن کی ممکنہ عوامی تحریک کے حوالے سے پرامید نظر آ رہے ہیں۔ سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی بیرون ملک سے واپسی کے بعد مذاکرات کا آغاز کیا جائے گا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسد قیصر نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے درمیان بات چیت جاری ہے اور جلد ہی ایک مشترکہ قومی ایجنڈا طے کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی مولانا فضل الرحمٰن وطن واپس آئیں گے، ایک نکاتی ایجنڈے پر بات چیت شروع کی جائے گی۔
سیاسی اتحاد کی کوششیں اور پس منظر
پی ٹی آئی نے حالیہ دنوں میں اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں کی ایک کانفرنس منعقد کی، جہاں حکومت پر مختلف الزامات عائد کیے گئے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ پی ٹی آئی نے گزشتہ سال اکتوبر میں مولانا فضل الرحمٰن کو اپوزیشن اتحاد میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر مذاکرات کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ سکے تھے۔ اس ناکامی کے بعد، پی ٹی آئی کو حکومت مخالف تحریک کو اپنی قوت کے بل بوتے پر آگے بڑھانا پڑا۔
اب ایک بار پھر پی ٹی آئی نے کثیر الجماعتی اتحاد کے قیام کے لیے جے یو آئی (ف) کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اپوزیشن کو متحد کیا جا سکے۔
ریاستی اداروں کے ساتھ تعلقات پر پی ٹی آئی کا موقف
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے ریاستی اداروں کے ساتھ اپنی پارٹی کے تعلقات پر وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت کسی بھی ادارے کے خلاف نہیں ہے بلکہ پاکستان کے استحکام کے لیے مضبوط ادارے ضروری ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عوام کی حمایت کے بغیر کوئی بھی ادارہ کمزور ہو سکتا ہے، اور اگر کسی نئے انسداد دہشت گردی آپریشن کی ضرورت پیش آئی، تو عوام کا اعتماد ادارے کے ساتھ ہونا لازمی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر جو موجودہ حکومت کے پیچھے ہیں، ایک مخصوص ادارے کو سب سے برتر ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، عوام میں بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کی وجہ سے یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر کو ختم نہیں کیا جا سکا، تو عمران خان جیسے تین نسلوں کے لیڈر کو بھی کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
افغان پالیسی، سیکیورٹی اور قومی خودمختاری پر خدشات
اسد قیصر نے اس بات پر زور دیا کہ سابقہ فاٹا میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی ایک بڑی وجہ افغان پالیسی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ اس مسئلے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے تاکہ ایک مؤثر حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔ ان کے مطابق، سرحدی علاقوں میں مقیم افراد کا کاروبار افغانستان اور ایران سے وابستہ ہے، اور ان کی مشکلات کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
انہوں نے حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ محض امریکا کی جانب سے شکریہ کہے جانے پر حکومت خوش ہو رہی ہے، جو ملک کی خودمختاری کے لیے ایک تشویشناک امر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی حالت میں پاکستان کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کے مطابق نئی حکومت تشکیل دی جائے۔
نتیجہ: پی ٹی آئی کی مستقبل کی حکمت عملی
پی ٹی آئی نے اپوزیشن اتحاد کو مضبوط کرنے اور ریاستی اداروں کے ساتھ متوازن تعلقات قائم کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر کام تیز کر دیا ہے۔ جے یو آئی (ف) کے ساتھ مذاکرات اور ایک نکاتی ایجنڈے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے علاوہ، سیکیورٹی، افغان پالیسی، اور قومی خودمختاری جیسے امور پر بھی پارٹی اپنی پالیسی کو مزید واضح کر رہی ہے۔ مستقبل میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو پاتی ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں
خیبر پختونخوا حکومت نے دہشت گردی کے خلاف افغان مذاکرات ناگزیر قرار دیے۔