پارلیمانی کمیٹی کی اہم تجویز، قیادت اور قوم یکجہتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں امریکہ نے کشیدگی کم کرانے میں کردار ادا کیا، بھارتی وزیر خارجہ کا اعتراف بھارت مقبوضہ کشمیر کی آبادی بدلنے کی کوشش میں مصروف: ترجمان دفتر خارجہ

ملٹری ٹرائل کیس بغیر شواہد کسی کو سزا دینا ممکن نہیں، جسٹس جمال مندوخیل

justice jamal khan mandokhail remarks on civilians military trial case hearing in supreme court of Pakistan.

اسلام آباد فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز پر سپریم کورٹ کی سماعت

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کے خلاف شواہد موجود نہ ہوں تو اسے سزا نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر شواہد نہیں ہیں تو ملزمان بری ہو جائیں گے اور پھر یہ کہا جائے گا کہ عدلیہ کی ساکھ متاثر ہو گئی ہے۔

آئینی بینچ کی دلائل کی سماعت

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آرٹیکل 8(3) اے میرے کیس پر لاگو ہوتا ہے تو اس سے بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سویلینز کو فوجی عدالتوں میں نہیں ٹرائل کیا جانا چاہیے، مگر وہ پورے آرمی ایکٹ کو چیلنج نہیں کر رہے تھے۔ جسٹس منیب نے اپنے فیصلے میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ پچھلے روز ہم قائل ہو گئے تھے کہ فوجی ٹرائلز میں انصاف ہوتا ہے۔ تاہم، وکیل نے حکومت کے موقف سے اختلاف کیا جس میں کہا گیا کہ آرٹیکل 8(3) اے کے تحت سویلینز کا کیس نہیں دیکھا جا سکتا۔

قانونی معاملات اور مختلف آراء

دوران سماعت، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ 1967 میں آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں آئیں اور تب سے یہ ایکٹ چلا آ رہا ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سیاسی معاملات میں کس طرح پیچیدہ ہو سکتے ہیں، اور سابقہ واقعات جیسے کہ مہران بیس کے حملے کا حوالہ دیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے 9 مئی اور 16 دسمبر کے واقعات میں فرق پوچھا۔ وکیل خواجہ احمد حسین نے بتایا کہ 16 دسمبر کے واقعات میں ملوث افراد دہشت گردی کے مقدمات میں شامل تھے، جن کے ٹرائل کے لیے بعد میں قانون میں ترامیم کی گئی تھیں۔

دفاعی وکیل نے اس بات پر زور دیا کہ سویلینز فوجی قانون کے تحت نہیں آتے، اور صرف فوجی اہلکاروں پر یہ قانون لاگو ہوتا ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے سوال کیا کہ کیا ایئر بیسز پر حملے پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ اس طرح کے واقعات میں فوجی عدالتوں کا اختیار نہیں۔

فوجی عدالتوں کا کردار اور انصاف کی ضمانت

دوران سماعت وکیل احمد حسین نے فوجی عدالتوں میں انصاف کے بارے میں سوال اٹھایا، خاص طور پر اس اعلامیے کے بعد جو 9 مئی کے واقعات کے بارے میں آئی ایس پی آر نے 15 مئی کو جاری کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب اتنے اہم شواہد پہلے ہی سامنے آ چکے ہوں تو ایک منصفانہ ٹرائل کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے؟ اس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ دلائل کیس کی میرٹ سے متعلق ہیں اور انہیں عدالتی فیصلے تک محدود رہنا چاہیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے فوجی عدالتوں میں کچھ مخصوص دفعات کو کالعدم قرار دینے کے اثرات پر بات کی، خاص طور پر کلبھوشن یادو کے کیس کے حوالے سے، جس پر وکیل نے کہا کہ اس فیصلے میں کلبھوشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔

مستقبل میں فوجی ٹرائلز کا مستقبل

جسٹس حسن اظہر رضوی نے پوچھا کہ اگر مستقبل میں کوئی دشمن ملک کا جاسوس پکڑا جائے تو اس کا ٹرائل کہاں ہوگا؟ وکیل نے کہا کہ اس کا ٹرائل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوگا۔ جس پر جسٹس حسن اظہر نے مسکراتے ہوئے کہا کہ “اچھا جی۔”

جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ اگر آرمی ایکٹ کی کسی شق کو کالعدم قرار دے دیا جائے تو بھی اس کی بعض خصوصی دفعات کو استثنیٰ دیا جائے۔ وکیل نے جواب دیا کہ مستقبل میں آرمی ایکٹ کی متنازعہ شق کا استعمال نہیں ہو سکے گا۔

آخرکار، فوجی عدالتوں کے کیس کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔ کیس کے فیصلے کا انتظار ہے، جو پاکستان میں فوجی عدالتوں کے مستقبل پر اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں
بانی پی ٹی آئی کی واپسی سے ان کا طرز سیاست ختم ہوگا، رؤف حسن

:دوسروں کے ساتھ اشتراک کریں

مقبول پوسٹس

اشتہار

بلیک فرائیڈے

سماجی اشتراک

Facebook
Twitter
LinkedIn
Pinterest
WhatsApp

:متعلقہ مضامین