سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے سویلین ٹرائلز پر سماعت
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت جاری ہے، جس میں آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن کے علاوہ اب تک جتنے سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہوا ہے، اس کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ اس موقع پر جسٹس حسن رضوی نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ ٹرائل میں شہادتوں پر کیسے فیصلے دیے گئے۔
آئینی بینچ کی سربراہی اور سماعت کا عمل
سپریم کورٹ میں 7 رکنی آئینی بینچ کی سربراہی جسٹس امین الدین خان کر رہے ہیں، جس نے کیس کی سماعت کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں بتایا کہ ملٹری ٹرائلز میں پورا قانونی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ جسٹس حسن رضوی نے کہا کہ عدالت نے آپ سے فوجی ٹرائلز کے متعلق تمام ریکارڈ طلب کیا ہے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ ٹرائلز میں شہادتوں پر کس طرح فیصلے کیے گئے ہیں۔
عدالت کا فوجی عدالتوں میں ٹرائلز کا جائزہ
خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹس یا سپریم کورٹ ملٹری ٹرائلز کے میرٹس کا جائزہ نہیں لے سکتیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ کیا فوجی عدالت میں شفاف ٹرائل کے تقاضے پورے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ زندگی کا حق اور فیر ٹرائل کا اصول ہمیشہ مقدم رہتا ہے، خواہ آرٹیکل 10 اے ہو یا نہ ہو۔
قانونی نکات اور آئینی شقوں پر بات چیت
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا آرٹیکل 8(3) کے تحت بنیادی حقوق واپس لیے جا سکتے ہیں؟ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا کہ آرمی ایکٹ 1973 سے آئین کا حصہ ہے، جس کے تحت آرٹیکل 8 ذیلی سیکشن 3 کے تحت بنیادی حقوق ختم ہو جاتے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر آرمی ایکٹ میں ترمیم ہو سکتی ہے تو کیا کسی سویلین کو فوجی عدالت میں ٹرائل کیا جانا مناسب ہے؟
آئندہ سماعت اور عدالتی فیصلے کا انتظار
آج کی سماعت میں عدالت نے فوجی عدالتوں کے طریقہ کار اور سویلین ٹرائلز کی تفصیلات پر مزید دلائل طلب کیے ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوشش کی جائے گی کہ آج تمام دلائل مکمل کر لیے جائیں تاکہ آئندہ سماعت پر فیصلہ کیا جا سکے۔ سماعت کو آج تک ملتوی کر دیا گیا۔