فضل الرحمان کا سیاست میں کردار
دو کشتیوں میں پاؤں رکھنے کا فن
جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ملتان میں جامعہ خیر المدارس میں ایک اہم خطاب کے دوران کہا کہ انہیں یہ پہلی بار محسوس ہوا ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن دونوں حلقے ان کی تعریف کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس بار “دو کشتیوں پر پاؤں رکھا” اور کامیابی کے ساتھ پار ہوگئے۔
سیاست میں مولانا فضل الرحمان کی مصروفیات
مولانا فضل الرحمان نے اپنی سیاست میں شامل ہونے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان کی روزمرہ کی زندگی کا بڑا حصہ ملکی سیاست میں گزرتا ہے۔ سیاست دانوں سے روزانہ کا سامنا ہوتا ہے اور مسلمانوں کے لیے حکومتی سطح پر اسلام کے تقاضوں کو پورا کرنا ہمیشہ ایک مشکل کام رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں ان کا کردار صرف سوالات کا جواب دینے تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ اس میدان میں ایک مضبوط موقف کے ساتھ سرگرم ہیں۔
“عقیدہ ختم نبوت” کی جنگ اور جمعیت کا عزم
مولانا فضل الرحمان نے اپنے سیاسی سفر کے حوالے سے بتایا کہ اگر وہ سیاست میں نہ آتے تو “عقیدہ ختم نبوت” کی جنگ لڑنا ان کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ جمعیت علمائے اسلام کے ارکان کی تعداد کم ہے، تاہم ہم نے اپنے اصولوں پر کمپرومائز کیے بغیر جدوجہد جاری رکھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے اکابر نے انہیں مدارس اور سیاست کے درمیان تعلقات کی اہمیت سمجھائی اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان دونوں کو بخوبی یکجا کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن سے تعریف: ایک نئی سیاست کی تصویر
مولانا فضل الرحمان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پہلی بار حکومتی اور اپوزیشن دونوں اطراف سے تعریفیں ملیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مواقع پر فائدہ اٹھانا ضروری تھا اور وہ ہمیشہ اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس موقع پر مولانا نے کہا کہ “اس بار اس مولوی نے دو کشتیوں پر پاؤں رکھا اور کامیاب ہو کر پار ہوگیا۔”