شفیق خان کی شہادت
26 نومبر کی شام کو جناح ایونیو اسلام آباد میں فائرنگ کی ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس میں شفیق خان نام کا نوجوان شہید ہو گیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب تحریک انصاف کے کارکن احتجاج میں شریک تھے۔ شفیق کی شہادت کے بعد اس کی لاش کو تین دن تک پمز ہسپتال میں چھپایا گیا، جبکہ اس کے بھائی عتیق کو مسلسل جھوٹ بول کر خاموش رکھنے کی کوشش کی گئی۔
حکومت کی طرف سے انکار
پمز اور پولی کلینک ہسپتالوں نے 27 نومبر کو یہ بیان جاری کیا کہ 26 نومبر کی فائرنگ سے کسی کی موت واقع نہیں ہوئی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان ہسپتالوں نے اس بات کا انکار کیا، حالانکہ وہی ہسپتال شفیق خان سمیت دیگر تحریک انصاف کے کارکنوں کے ڈیتھ سرٹیفکیٹس جاری کر چکے تھے، جن میں موت کی وجہ گن شاٹ لکھی گئی تھی۔
جھوٹے مقدمات اور صحافت کی آزادی
مطیع اللہ جان، ایک معروف صحافی، کو ان مظالم کی تحقیقات کرنے کی وجہ سے جھوٹے مقدمے میں ملوث کیا گیا۔ ان کا اصل جرم یہ تھا کہ وہ 26 نومبر کے واقعے کی تفصیلات اکٹھی کر رہے تھے۔ ان کے خلاف منشیات استعمال کرنے اور دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے درج کیے گئے۔ یہ مقدمہ صحافیوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ کوئی بھی حکومت کی بربریت کی حقیقت کو عوام کے سامنے نہ لائے۔
وزیر داخلہ محسن نقوی اور طاقت کا خوف
وزیر داخلہ محسن نقوی کی طرف سے 26 نومبر کے واقعے میں کسی کی موت کا انکار اور پھر جھوٹے مقدمات کا اندراج اس بات کا غماز ہے کہ حکومت اپنے اعمال کو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی۔ محسن نقوی کی اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد پولیس کے آئی جی نے مطیع اللہ جان کے خلاف مقدمہ درج کرایا، جس نے پاکستان کو عالمی سطح پر شرمندہ کر دیا۔
حکومت کا دوہرا معیار
وزراء نے ایک طرف تحریک انصاف کے کارکنوں پر الزام لگایا کہ وہ دھرنے کے دوران تخریب کاری کر رہے تھے، جبکہ دوسری طرف مظاہرین کی جانب سے ہونے والی فائرنگ کی حقیقت کو چھپایا گیا۔ رینجرز کے اہلکاروں کی ہلاکت کا الزام تحریک انصاف پر لگایا گیا، حالانکہ یہ بات سوالیہ ہے کہ ان اہلکاروں کو گولیاں کیوں نہ لگیں جبکہ مظاہرین کے پاس کوئی بڑی ہتھیار نہیں تھے۔
ریاستی دشمنوں کا فائدہ
26 نومبر کے کریک ڈاؤن کا سب سے زیادہ فائدہ ریاست دشمن کالعدم تنظیموں کو ہوا۔ ان تنظیموں نے سوشل میڈیا پر اپنے بیانیے کو مزید پھیلایا اور اپنے مقاصد کے لیے عوام کی ہمدردی حاصل کی۔ اس کے برعکس حکومت اسٹاک مارکیٹ کی تیزی پر خوشی کا اظہار کر رہی ہے، جو عام عوام کی زندگیوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔
جمہوریت کا بحران
اس طرح کی ریاستی کاروائیاں جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور اسے ایک مردہ حالت میں بدل دیتی ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جمہوریت کے نام پر آمریت زیادہ دیر تک نہیں چلتی۔ اگر ہم نے جمہوریت کو بچانا ہے تو ہمیں ان مظالم کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔
نتیجہ
26 نومبر 2024 کے کریک ڈاؤن کے واقعات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہماری ریاست میں حقیقت اور انصاف کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس صورتحال نے ہمیں سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر اسلام آباد میں صحافیوں کو سزا دی جاتی ہے اور احتجاج کرنے والوں کو مارا جاتا ہے تو دور دراز علاقوں میں کیا ہو رہا ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنی جمہوریت کی حفاظت کے لیے آواز اٹھائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ اس ملک میں انصاف اور آزادی برقرار رہے۔